اتوار، 21-دسمبر،2025
ہفتہ 1447/06/29هـ (20-12-2025م)

برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پربرطانیہ، یورپ اور امریکہ کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں : روسی صدر پیوتن

20 دسمبر, 2025 19:30

ماسکو : روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے 19 دسمبر 2025 کو منعقد ہونے والی سال 2025 کی اختتامی پریس کانفرنس میں ملکی و غیر ملکی صحافیوں اور روسی عوام کے سوالات کے تفصیلی جوابات دیے۔ کانفرنس کے دوران صدر پوتن نے روسی معیشت، یوکرین تنازع، یورپ کی سلامتی، نیٹو کے کردار اور مغرب کے ساتھ تعلقات پر روس کے مؤقف کو واضح انداز میں پیش کیا۔

صدر پوتن نے بتایا کہ سال 2025 میں روس کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی شرحِ نمو ایک فیصد رہی، تاہم گزشتہ تین برسوں کے دوران مجموعی ترقی 9.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو ان کے بقول زیادہ جامع اور حقیقت پسندانہ اشاریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی مدت میں یوروزون کی معاشی ترقی کی شرح صرف 3.1 فیصد رہی۔ صدر پوتن کے مطابق روس میں ترقی کی نسبتاً کم رفتار ایک دانستہ اور باقاعدہ پالیسی فیصلہ ہے، جس کا مقصد معیشت کے معیار، استحکام اور مضبوط بنیادوں کا تحفظ ہے۔
یورپ میں روسی اثاثوں کی ضبطی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صدر پوتن نے کہا کہ برسلز میں روسی اثاثے ضبط کرنے کی کوششوں کو ’’چوری‘‘ نہیں بلکہ ’’ڈاکہ‘‘ کہا جانا چاہیے، کیونکہ یہ اقدامات کھلے عام کیے جا رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ اقدام تاحال عملی شکل اختیار نہیں کر سکا، کیونکہ اس کے نتائج نہایت سنگین ہو سکتے ہیں اور یہ نہ صرف ذمہ دار فریقوں کی ساکھ بلکہ عالمی مالیاتی نظام کی بنیادوں کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ صدر پوتن نے کہا کہ بالآخر ضبط کیے گئے تمام اثاثوں کی واپسی ناگزیر ہوگی اور روس اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانونی اور آئینی راستے اختیار کرے گا۔
یوکرین جنگ اور امن مذاکرات کے حوالے سے صدر پوتن نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کیا کہ روس امن کی کوششوں کو رد کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماسکو نے کھلے عام مفاہمت اور مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے، تاہم اس مرحلے پر پہل کی ذمہ داری مکمل طور پر مغرب پر عائد ہوتی ہے، بالخصوص کیف کی حکومت اور اس کے یورپی سرپرستوں پر۔ انہوں نے واضح کیا کہ روس مذاکرات اور پرامن حل کے لیے تیار ہے۔
صدر پوتن نے یورپ میں ایک نئے سلامتی نظام کے قیام کو آج بھی نہایت اہم قرار دیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سوویت یونین کے انہدام سے قبل ہی یورپ میں ایسے سیکیورٹی نظام کی تجاویز پیش کی گئی تھیں جن میں نیٹو کی توسیع سے گریز، امریکا، مشرقی یورپ اور روس کی شمولیت اور کسی بھی فریق کے خلاف جارحیت سے اجتناب شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ روس کسی غیر معمولی مطالبے پر اصرار نہیں کر رہا اور نہ ہی کسی ملک کے اپنے دفاع کے حق کو چیلنج کرتا ہے، تاہم یہ انتخاب دوسروں کے لیے، بشمول روس، کسی خطرے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
یورپ کی داخلی صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے صدر پوتن نے کہا کہ یورپ کی حکمران اشرافیہ اپنی برسوں کی معاشی اور سماجی پالیسیوں کی ناکامی کو ’’جارح روس‘‘ کے بیانیے کے پیچھے چھپا رہی ہے۔ انہوں نے ’’گرین ایجنڈا‘‘ پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک طرف ماحولیات کے نام پر دعوے کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں اور ایٹمی بجلی گھروں کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق موجودہ کشیدگی بڑی حد تک مغربی سیاست دانوں کی اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
امریکی سیاست کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صدر پوتن نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ پر روس کے ساتھ ’’سازباز‘‘ کے الزامات لگائے گئے، تاہم بعد ازاں یہ الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے۔ نہ کسی سازباز کا کوئی ثبوت سامنے آیا اور نہ ہی روسی مداخلت کی تصدیق ہو سکی۔ اس کے برعکس، انہوں نے دعویٰ کیا کہ یورپ کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے براہِ راست اور علانیہ مداخلت دیکھی گئی۔ ان کے مطابق یورپ کے بعض حلقے اب بھی 2026 کے امریکی وسط مدتی انتخابات کے ذریعے سیاسی دباؤ بڑھانے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

صدر پوتن نے کہا کہ مساوی قوتِ خرید کے لحاظ سے اگر روس اور یورپی ممالک کی مجموعی قومی پیداوار کو یکجا کیا جائے تو وہ امریکا سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تصادم کے بجائے مشترکہ صلاحیتوں کو مؤثر انداز میں استعمال کیا جائے تو باہمی خوشحالی ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس یورپ سے جنگ نہیں کر رہا بلکہ یورپ یوکرینی قوم پرستوں کے ذریعے روس کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ صدر پوتن نے واضح کیا کہ اگر درمیانی اور طویل مدت میں روس کی سلامتی کی ضمانت دی جائے تو ماسکو فوری طور پر عسکری کارروائیاں روکنے کے لیے تیار ہے۔
کلینن گراڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صدر پوتن نے کہا کہ وہ اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ اس علاقے کے محاصرے کی نوبت کبھی نہیں آئے گی، تاہم اگر اس نوعیت کے خطرات پیدا کیے گئے تو ان کا مؤثر سدِباب کیا جائے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے اقدامات غیر معمولی کشیدگی کو جنم دے سکتے ہیں اور تنازع کو زیادہ سنگین سطح تک لے جا سکتے ہیں۔
نیٹو کی قیادت کے بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صدر پوتن نے کہا کہ امریکا کی تازہ ترین قومی سلامتی کی حکمتِ عملی میں روس کو بطور دشمن پیش نہیں کیا گیا، حالانکہ امریکا نیٹو کا مرکزی رکن اور سب سے بڑا سرپرست ہے۔ اس کے باوجود نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ کی تیاری سے متعلق بیانات سامنے آنا تشویشناک ہے اور بعض مغربی رہنماؤں کے طرزِ بیان پر سوالات اٹھاتا ہے۔
اختتام پر صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ روس برطانیہ، پورے یورپ اور امریکا کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے، مگر صرف برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر، ان کے مطابق اگر کبھی ایسا موقع آیا تو اس کے مثبت ثمرات تمام فریقوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

Catch all the دنیا News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News


Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.

اوپر تک سکرول کریں۔