دفاعی قوت کو دفاعی لحاظ سے مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، سیاسی قوت کے طور پر نہیں؛ فضل الرحمان

دفاعی قوت کو دفاعی لحاظ سے مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں سیاسی قوت کے طور پر نہیں، فضل الرحمان
کراچی: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ دفاعی قوت کو دفاعی لحاظ سے مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، سیاسی قوت کے طور پر نہیں۔
تفصیلات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کراچی میں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط دفاع پاکستان کے لیے ناگزیر ہے اور اس میں بہتری خوش آئند ہے، تاہم ملک کی ترقی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ تمام ادارے آئین کے تحت اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ اداروں کی باہمی بالادستی کے بجائے آئین کی بالادستی ہی ملک کو آگے لے جا سکتی ہے، ملک کی دفاعی طاقت کو صرف دفاع کے دائرے تک مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، سیاسی معاملات میں طاقتور ہونا عوام اور منتخب نمائندوں کا حق ہے، نہ کہ دفاعی اداروں کا، پاکستان کو کسی صورت غزہ میں فوج نہیں بھیجنی چاہیے۔
اس موقع پر گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے مولانا فضل الرحمان کو اعزازی ڈگری پیش کی، جس پر انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ رسمی القابات کے بجائے خود کو ’’مولانا‘‘ کہلوانا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کا احترام اور روایات کا تحفظ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔
افغانستان سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حالیہ واقعات کو وقتی تناظر میں دیکھنے کے بجائے گزشتہ 78 برس کی افغان پالیسی کا جائزہ لینا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ظاہر شاہ سے لے کر اشرف غنی تک پاکستان کو کبھی مستقل افغان دوست حکومت نصیب نہیں ہوئی، جس پر ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آیا یہ ہماری پالیسی کی ناکامی تو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف الزام تراشی کے بجائے خود احتسابی بھی ضروری ہے۔
قانون سازی کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئین پاکستان واضح طور پر کہتا ہے کہ قوانین قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوں گے، مگر حالیہ برسوں میں کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد اور ٹرانس جینڈر سے متعلق قوانین اقوام متحدہ کے دباؤ پر منظور کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان معاملات پر سنجیدہ مکالمہ ہونا چاہیے اور جے یو آئی اس پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے دینی مدارس کے حوالے سے کہا کہ جب کسی ادارے کے ساتھ امتیازی یا جارحانہ رویہ اپنایا جاتا ہے تو ردعمل فطری ہوتا ہے، عالمی سطح پر اگر پاکستان کسی شعبے میں نمایاں ہے تو وہ دینی علوم ہیں، جن کی قدر کی جانی چاہیے۔
غزہ کے معاملے پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے پاکستان کو کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت یا امن فورس کا حصہ بننے سے خبردار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایسے فیصلوں کے تلخ نتائج سامنے آ چکے ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ایسی فورسز درحقیقت جنگی کارروائیوں کا حصہ بنتی ہیں، اس لیے پاکستان کو ایسی کسی غلطی سے گریز کرنا چاہیے۔
افغان مہاجرین سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ شکایات افغان حکومت سے ہونی چاہئیں، نہ کہ ان مہاجرین سے جو چار دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مہاجرین کے ساتھ مہمانوں جیسا برتاؤ ہونا چاہیے اور ایک جامع پالیسی کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو پاکستان کی معیشت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
آخر میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 2018 اور 2024 کے انتخابات عوامی مینڈیٹ کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کے تحت ہوئے، جو جمہوری نظام کے لیے نقصان دہ ہے۔
Catch all the پاکستان News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.










