ہفتہ، 11-اکتوبر،2025
ہفتہ 1447/04/19هـ (11-10-2025م)

کینیڈین اداکارہ کے امریکی حراستی مرکز میں گزرے 12 دن

26 مارچ, 2025 11:54

میں ہوں جیسمین مونی! میری پرورش شمالی مغربی کینیڈا کے چھوٹے سے شہر یوکون میں ہوئی ، ہمیشہ سے ارادہ تھا کہ زندگی میں کچھ بڑا کرنا ہے اس لئے جلد ہی وِینکُوور۔ برٹِش کولمبیا منتقل ہوگئی۔

 میری پیشہ وارانہ زندگی فلموں (امریکن پائی) ، ڈراموں میں کام کرنے سے لے کر بارز، ریسٹورنٹس کی ملکیت پانے، مکانات میں سرمایہ کاری اور ائیربی این بی بھی کامیابی سے چلانے تک پھیل گئی۔

مزید پڑھیں:امریکا اور روس کے درمیان مذاکرات میں کیا طے پایا؟ کریملن نے بتادیا

آخرکار مجھے صحت و تندرستی سے متعلق ایک برانڈ میں کام کرنے کا موقع ملا جس کے لئے مجھے امریکہ منتقل ہونا پڑا ۔مجھے نافٹا ورک ویزا ملا جس کےبعد کئی مرتبہ امریکہ سے کینیڈا بغیر کسی رکاوٹ کے سفر کیا۔

امریکی امیگریشن سے پہلی بار آمنا سامنا

ایک روز کینیڈا سے امریکہ واپس آتے ہوئے ایک امیگریشن اہلکار نے مجھ سے پوچھا کہ میرے ویزے کی پہلی درخواست کیوں رد ہوئی اور دوسری بار میری ویزے کی درخواست کیوں منظور ہوئی؟

مزید یہ کہ میں سان ڈیاگو (امریکہ – کینیڈا سرحد) پر ہی دوسری بار ویزہ درخواست کے لئے کیوں گئی تھی ؟ میں نے جواب دیاکہ یہ سب اس لئے کیا کیونکہ میرے وکیل کا دفتر وہاں واقع ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ کوئی مسئلہ پیدا نا ہو۔۔

یہ پوچھ گچھ طول پکڑ گئی اور امیگریشن افسر نےمیرے ویزے کے معاملے کو مشتبہ/ مشکوک قرار دیا کہ میرا ویزہ درست طریقے سے جاری نہیں کیا گیا تھا، افسر نے میرا ویزہ کینسل کر دیا اور دعویٰ کیا کہ میں امریکہ میں کسی ایسی کمپنی کے لئے کام نہیں کرسکتی جو

Hemp نامی جُزیا اَجزَا کی مصنوعات تیار کرتی ہولیکن امیگریشن افسر کے بقول کینیڈا میں رہ کر میں اس کمپنی کےلئے کام کرسکتی ہوں اور امریکہ میں کام کرنے کے لئے مجھے نئے سرے سے ویزہ درخواست جمع کرانی ہوگی۔۔

سان ڈیاگو سرحد پرمیری اغوا کاری جسے گرفتاری کہاگیا

کچھ مہینے کینیڈا میں گزارنے کے بعد مجھے صحت وتندرستی سے جُڑی کسی اور امریکی کمپنی میں ملازمت کی پیشکش ہوئی۔ میں نے اَزسرِنو ویزہ پراسِس شروع کیااورسان ڈیاگوسرحد پر پہنچ گئی کیونکہ میراآخری ویزہ یہاں پرہی جاری کیاگیاتھا، یہاں امیگریشن  افسران کے درمیان میرے ویزے درخواست پر متضاد آرا کےسامنے آنے کے بعدامیگیریشن افسر نے کہا کہ سابق ویزہ مسائل کی وجہ مجھے اپنی ویزہ درخواست کینیڈا میں قائم امریکی کانسلیٹ میں جمع کروانی پڑیگی،مجھے بھی کانسلیٹ میں ویزہ درخواست جمع کرانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔۔

امریکی امیگریشن آفیسر نےمجھے پھرایک انہوں نے جملہ کہا! تم نے کچھ غلط نہیں کیا ناہی تم کسی مشکل میں ہو اورناہی کوئی مجرم ہو۔۔

میں سوچتی رہ گئی کہ انھوں نے ایسا کیوں کہا ظاہر ہے کہ میں کوئی مجرم نہیں ہوں۔ امیگریشن افسرنے کہا کہ تمھیں واپس کینیڈا بھیجا جائےگا ،میں وہیں بیٹھ کرکینیڈا کے لئے اگلی فلائیٹس اپنے موبائل پر تلاش کرنے لگی کہ اتنے میں ہی افسر نے کہا میرے ساتھ آئو۔۔

ایک کمرے میں لے جانے کے بعدمیرا تمام سامان مجھ سے لےلیا گیا،ایک کے بعد ایک حکم صادر ہونا شروع ہو گیا ۔ مجھے دیوارکی جانب منہ کرکےکھڑاکیاگیا،میرے ہاتھ دیوار پررکھواکرخاتون افسر نےہاتھوں سےجامہ تلاشی لی ، جوتے اتروالئےگئے۔۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ میں اب زیرِحراست ہوں ۔
کب تک ؟ جواب دیاگیا معلوم نہیں ، اگلے دو ہفتوں تک میرے تقریبا ہر سوال کے  لئے ان کا یہی جواب تھا ! معلوم نہیں۔
ناختم ہونے ہونے والے انٹرویوز یا پوچھ گچھ کہ بعدمجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں چند خواتین پہلے سے زیرِحراست تھیں۔ خون جما دہنے والی سردی سے بچائو کے لئے مجھے ایک ایلمونیم فوائل شیٹ،ایک بِچھونا اورایک کمبل دیا گیا،یہ حراست دو دن تک جاری رہی  ایک قریبی فرد کا فون نممبر بھی لیا گیا تاکہ میری تفصیلات و حالت سے باخبر رہ سکے۔۔

اگلے حراستی کمرے میں مجھے کمبل و بچھونا بھی دستیاب نا تھا یعنی مجھے ایک باقاعدہ جیل بھیجنے کی تیاری کی جارہی تھی۔مجھے نہانے کا حکم دیا گیا ، جیل یونیفارم دی گئی ،انگلیوں کے نشانات ریکارڈ کئے گئے۔ میں نے سوال کیاکہ مجھے کب تک یہاں رکھاجائےگا ؟مجھے بتایا گیا کئی دنوں تک ، شاید ہفتوں لیکن کئی مہینے بھی لگ سکتےہیں

نرس ایک فرشتہ

نرس نے میرا طبِی معائنہ کیا ۔اس نرس نے مجھ سے پہلے کبھی بھی کسی کینیڈین کو اس جیل میں نہیں دیکھا تھا۔ میرے حالات جاننے کے بعد میرا ہاتھ تھام کراس نے پوچھاکہ کیا تم خدا پریقین رکھتی ہو؟ میں نے جواب دیا کہ میں نےحال ہی میں خداکوجانا ہےلیکن اب مجھے تمام چیزوں سے زیادہ خداپربھروسہ ہے۔۔

نرس نے کہا اسے یقین ہے کہ خدا نے مجھے اس جیل میں کسی (خاص) وجہ (مقصد ۰ سبق) کے لئے بھیجا ہے۔ ابھی تمھیں زندگی لاکھوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی محسوس ہورہی ہوگی لیکن تم ٹھیک ہی رہوگی اور دوسروں کی مدد کا راستہ تمھیں ملےگا۔

اس وقت میں کچھ نا سمجھ سکی، اس نے میرا ہاتھ تھام کرمیرے لئے دعا کی۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ نرس ایک فرشتہ ہے جو میرے لئے بھیجا گیا ہے۔

امریکی حراستی مرکزمیں زندگی

یہ جیل ہالی ووڈ کی فلموں جیسا ہی تھا، اس میں دو منزلیں تھیں اور درمیان میں کامن ایریا۔ بیمار ہونے کے ڈرسے میں نے کھاناکھانے سے اجتناب کیا۔ لیکن آخرکار میں ہمت کرکے اپنے سیل سے باہر نکلی تاکہ یہاں رہنے کے طریقے سیکھ سکوں ۔ یہاں پر ہی میں دوسری قیدی خواتین سے ملی جو سالہاسال سے امریکہ میں قانونی طور پر کام کرتی رہیں لیکن بالاآخرویزہ مسترد ہونے ، ویزہ مدت سے زیادہ قیام کرنے وغیرہ کی وجہ سے بغیر کسی انتباہ کے گرفتارکرلی گئی تھیں۔

ان تمام خواتین کی مشکلات و تکلیفوں کے سامنےمجھے میری مشکل ہیچ محسوس ہوئی اسی لئے میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ میں خود پرآنسو نہیں بہائونگی اور ناہی خُودترسَی یا شرمندگی کی حالت میں جئیوں گی چاہے ایسا کرنامیرےلئے کتنا ہی مشکل کیوں نا ہو میں شکرگزاررہوںگی۔۔

یہ خواتین ایک ناختم ہونے والے بیوروکریٹکِ غیریقنی حالات ومستقبل کی ستائی گئی تھیں۔ان کواحساس تھا کہ ان کو اپنے ویزہ معیاد سے زائد امریکہ میں نہیں رکنا چاہیئے تھا ، یہ زمہ دارخواتین ہیں جوکسی بھی قسم کے جرائم میں ملوث نہیں اور امریکہ سے بےدخلی کی صورت میں انکو اپنی ملکیتی اشیا سے بھی ہاتھ دھونا پڑیگا جو انھوں نےسالہاسال بے انتہا محنت کرکے حاصل کیں۔

خواتین قیدیوں کی بدقسمت کہانیاں

یہاں دردناک کہانیوں کی کمی نہیں،ایک میاں بیوی جو پادری ہیں۔ ایک دس سالہ ورک ویزے پر امریکہ میں رہائش پزیر تھے ، ایک روڈ ٹرِپ کے دوران سان ڈیاگو سرحد میں وہ ایک غلط لین میں داخل ہوئے جومیکسیکو جارہی تھی ۔ ان کو امیگیرشن افسر نے روک کر پاسپورٹ طلب کئے جو ظاہرہے اس وقت ان کے پاس دستیاب نہیں تھے یہ پادری اسی وقت گرفتارکرلئے گئے۔

ایک اور فیملی جو گیارہ سالوں سے قانونی طور امریکہ میں رہائش پزیرتھے انکی والدہ کو ہر سال بیک گرائونڈچیک کےلئے بلایا جاتاتھا امسال انکو پوری فیملی کے ساتھ بیک گرائونڈ چیک کے بہانے امیگریشن آفس بلاکرحراست میں لے لیا گیا کہ کیس کا حتمی فیصلہ ہونےتک انھیں امیگریشن حراستی مرکز میں ہی رہنا پڑے گا۔

ایک بھارتی لڑکی اپنے تعلیمی ویزہ پر محض تین دن زیادہ قیام کر کے بھارت واپس چلی گئی۔ اسکے بعد بھارت سے ایک نیا تعلیمی ویزہ لے کر وہ امریکہ واپس آئی تاکہ اپنی ماسٹرز کی ڈگری ختم کرسکے لیکن اسکو بھی امیگریشن حراستی مرکز میں قید کرلیاگیا ہے کیونکہ اس نے اپنے پچھلے تعلیمی ویزے پر تین دن امریکہ میں زیادہ گزارےتھے۔

 یہاں یہ خواتین چند ہفتوں سے لے کر دس مہینوں سے امیگیرشن کے حراستی مرکز میں اپنے مستقبل کا انتظار کررہی ہیں۔۔

جب اجنبی بھی فیملی ممبر جیسے بن گئے

اس رات پادری اورتمام قیدی خواتین نے دُعاکی تقریب منعقد کی،مجھے بھی اس میں شامل کیا گیا ، بیماروں،بچوں سبھی کےلئے دعاکی جو کئی ہفتوں اور مہینوں سے اپنے پیاروں سے جداکردئے گئےتھے۔ پھر سب نے میرے گرددائرہ بنایا اور میرے ہاتھ تھام کرمیرےلئےدعاکی ۔ ہر کوئی وہاں اشک بار تھا اتنی اپنائیت، محبت اور طاقت کو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔۔

ہرقیدی کے لئے اب دیگر قیدی اور حوالات ایک طرح کے گھر کی محسوسات کی مانند لگنے لگتے ہیں جب اگلے دن صبح ۳بجے مجھے نئی جیل میں ٹرانسفر ہونے کے احکامات دئے گئے تو مجھے بھی اس تعلق کاادراک ہوا۔ ایک دوسرے کو الوداع کرنادل دہلا دینا والا منظر تھا جبکہ یہاں کسی کی بھی ایک دوسرے سےکوئی  پرانی جان پہچان نا تھی۔۔

آخری منزل

اگلی منزل ایریزونا کا سان لوئیس ریجنل ڈیٹینشن سینٹرتھا۔دورانِ سفر ہمارے ہاتھ ہتھکڑیوں سے اور پیر بیڑیوں سے بندھےتھے۔ یہاں ازسرِنوطبی جانچ پڑتال، فنگرپرنٹنگ اور پریگنینسی ٹیسٹ وغیرہ کئے گئے ۔ یخ بستہ حوالات میں ۲۴ گھنٹے لائیٹس کھلی رکھی جاتیں، ہم 30 افراد کوپینےکےلئے ایک ڈسپوزبل گلاس دستیاب تھا۔بغیرتکیہ اور ایک کمبل لپیٹے ہم سب لاشوں کی مانند ہی لگ رہےتھے۔۔

یہاں بھی فون کال کی سہولت میسر ناتھی لیکن دیوارکے ساتھ لگے ٹیبلیٹ سے میں اپنے بَاس کو ای میل کرنے اور بالاآخر اپنی دوست سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئی، اس نے وکلا، میڈیا وغیرہ کے ساتھ مل کر میری رہائی کی کوششیں تیزکردیں۔

ایسے حالات انسان کو توڑنے کے لئے کافی ہیں شاید یہی انکا اکلوتا مقصد بھی تھا۔ الگ الگ ملکوں، الگ الگ تہذیب و مادری زبان ہونیکے باوجود ہم ایک دوسرے کا مظبوط سہارابن گئے تھےاورآنے والے وقت کے لئے ایک دوسرےکو تیار کرتے رہتےتھے۔۔

امریکی امیگریشن حراستی مرکز سے رہائی

آخرکار پریس میں میری کہانی کے آنے کی وجہ سے مجھے رہا کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ غور کریں کہ میرے کینیڈین شہری ہونے ،مالی وسائل ہونے ، وکلا، فیملی ، دوست،سیاستدانوں، میڈیا مُہم ہونے باوجود بھی مجھے اس قیدخانے اور زلتِ بھرے پراسِس سے نکلنے میں دو ہفتے لگ گئے تو دیگر افرادکے ساتھ یہ نظام کیا کچھ کریگا۔۔

کینیڈا واپس پہنچنے پر مجھے احساس ہوا کہ امیگیریشن حراستی نظام ایک سوچا سمجھا کاروباری ماڈل ہے جس میں بےپناہ منافع بٹورنےکےلئے ضروری ہے کہ زیرِحراست افراد کا باہر آنا ناممکن بنایا جائے۔
یہ تمام حراستی مراکز نجی افراد اور کمپنیوں کی ملکیت ہیں ۔ حراستی مرکز چلانے والی ایک کمپنی نے کورسوِک نے ایک سال میں 56 کروڑ ڈالرز کا منافع کمایا جبکہ حراستی مرکز چلانے والی ایک اور کمپنی جیوگروپ نے 76 کروڑ ڈالرز کا منافع سمیٹا۔۔ ان کمپنیوں کے منافع کا دارومدار زیادہ سے زیادہ افراد کو زیادہ سے زیادہ دیر تک قید رکھنے میں مضمر ہے۔۔

میری زندگی کا سبق آموز تجربہ

میں نے اس پورے معاملے میں انسانی زندگی میں یقین کی اہمیت کو پہچانا۔ انتہائی مشکل حالات میں انسانی مدد، انسان دوستی کو زندہ رکھنےکا جزبہ انہی میں دیکھا جو سب سے زیادہ ستم رسیدہ افراد تھے۔ تمام تر تاریکیوں کے باوجود انسانوں کا ایک دوسرے کو جانے پہچانے بغیر ایک دوسرے کی طاقت بننا ، محبت دینا ، دعا کرنا انسانیت کی جیت ہے۔

نوٹ: جی ٹی وی نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔

Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News


Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.

اوپر تک سکرول کریں۔