نیا جیوپولیٹیکل آرڈر کی تشکیل کیلئے کیا ولادمیر پیوٹن امریکہ اور چین کو ایک پیج پر لاسکے گا

نیا جیوپولیٹیکل آرڈر کی تشکیل کیلئے کیا ولادمیر پیوٹن امریکہ اور چین کو ایک پیج پر لاسکے گا
کے جی بی کے سابق چیف یوگینی ساوستیانوف نے کہا ہے کہ روس، چین اور امریکہ ایک نیا جیو پولیٹیکل آرڈر تشکیل دینے جارہے ہیں جس پر عمل کرنے کی صورت میں یورپ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یورپی یونین کی واحد ایٹمی طاقت فرانس نے تین بڑی طاقتوں کے عزائم کے سامنے بند باندھنے کا اشارہ تو دیا ہے مگر فرانس سے زیادہ اُمیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہیے، یورپ کو تابع کرنے کیلئے روسی صدر کے عزائم پورے نہیں ہوتے ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ اور صدرپوٹن کے درمیان موجودہ مذاکرات ایسے معاہدوں کا باعث بن سکتے ہیں جو یورپ کو مکمل طور پر سائیڈ لائن کر دیں گے تو اس صورت میں یورپ کو مقابلے کا میدان تو مل سکتا ہے مگر کیا یورپی حکومتیں اپنی دفاعی صلاحیت اور عالمی خطرات کےمتعلق انٹیلی جنس جمع کرنے کیلئے تیار ہیں جو بڑے مالی وسائل کا تقاضہ کرتے ہیں، یورپ دفاع کیلئے مالی وسائل خرچ کرنے کے بجائے یہ سارا بوجھ امریکہ پر ڈال رہا ہے، واشنگٹن نے یورپی نیٹو کے ارکان پر زور دیاہے کہ وہ دفاعی اخراجات کیلئے اپنےجی ڈی پی کا کم از کم 2 فیصد مختص کریں، یہ ہدف 2014 میں ویلز میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں طے پایا تھا لیکن یورپ اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکا، صدر ٹرمپ نے تو نیٹو کے مستقبل کو یورپی یونین کے ملکوں کی جانب سے جی ڈی پی کا 4 فیصد تک دفاعی بجٹ کیلئے مختص کرنے سے مشروط کی ہے۔
مزید پڑھیں:امریکا اور روس کے درمیان مذاکرات میں کیا طے پایا؟ کریملن نے بتادیا
نیٹو کے رکن یورپی ملکوں مثلاً، پولینڈ، برطانیہ، اور بالٹک ریاستوں نے تو 2 فیصد کا ہدف کو پورا کیا لیکن جرمنی اور دیگر ملکوں نے دفاعی اخراجات بڑھانے میں سست روی کا مظاہرہ کررہے ہیں، یورپ کے اس طرز عمل پر امریکی صدر اس قدر ناراض ہیں کہ وہ روس اور چین کیساتھ ملکر جیو پولیٹیکل آرڈر تشکیل دینا چاہتے ہیں تاکہ تین بڑی طاقتوں کیساتھ ملکر دنیا کے نظام کو چلایا جاسکے، صدر ٹرمپ امریکہ کو واحد قوت کے طور پر عالمی تنازعات میں فوجی قوت کے استعمال پر امریکی ٹیکس پیئر کا پیسہ خرچ کرنے کی شدید مخالفت کررہے ہیں تاکہ وہ مختلف قسموں کے بحرانوں سے دوچار امریکہ کو نکال سکیں، درآمدی اشیاء کی ڈیوٹی بڑھانے کے معاملے پر امریکہ اور چین بظاہر آمنے سامنے نظر آرہے ہیں مگر درپردہ ایسی کوششیں ہو رہی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ دیگر میدانوں پر حاوی نہ ہوسکے اور یقیناً اس میں روس کا کردار اہم ہے کیونکہ روسی صدر ولادمیرپوتن امریکہ اور یورپ کی حالیہ مہینوں میں پیدا ہونے والی دوریوں سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں:چینی الیکٹرک کار ساز کمپنی نے ٹیسلا کو پیچھے چھوڑ دیا
امریکہ کے بین الاقوامی معاملات میں اپنے کردار کو بڑی حد تک کم کرنے کے فیصلے کی وجہ سے ایک نیا جیو پولیٹیکل آرڈر لامحالہ جنم لے گا، یورپی حکام نے واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے دوران نظرانداز کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، یورپ یعنی یورپی یونین اور برطانیہ کو امریکی حمایت کئے بغیر یوکرین میں امن کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور انہیں امن عمل کے ہر مرحلے پر ٹرمپ کی قیادت کی پیروی کرنی ہوگی، یورپی کمیشن کے صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے خبردار کیا ہے کہ یورپ کو فوری طور پر اپنے دفاعی اخراجات میں اضافے کرنا ہوگا اور ضمن میں کوئی بھی کوتاہی یورپی سلامتی کو سبوتاژ کردے گی، روسی، یوکرائنی اور امریکی حکام نے حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جنگ بندی پر بات چیت کی ہے اور یورپ کو نظرانداز کرتے ہوئےیوکرین کو جنگ بندی معاہدے کو قبول کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا ہے، صدرپوتن کے اقدامات طویل المدتی عزائم کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ماسکو کی عالمی حیثیت کو منوانا چاہتے ہیں، ماسکو نے ابھی بحیرہ اسود میں کیف کے ساتھ بحری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، پوٹن دریائے ڈینیپر پر روس کا ایسا کردار چاہتے ہیں جو یورپ کی طرف سے چیلنج نہ ہوسکے، جس کی وجہ یوکرین میں یورپی امن فوج کا کردار ہی ختم ہوجاتا ہے، اطلاعات کے مطابق روس جنگ بندی کے مذاکرات کے دوران یوکرین کے چار علاقوں ماسکو کے ماتحت رکھنے کا مطالبہ کررہا ہے۔
اگر یورپ اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری نہیں آتی جو مشکل نظر آرہی ہے تو چین کو اس نئے ورلڈ آرڈر میں نمایاں مقام حاصل ہوگا، چینی وزارت خارجہ نے اس بات کی تردید کی کہ بیجنگ، یوکرین کیلئے یورپی یونین کی سربراہی میں ممکنہ امن مشن میں شامل ہو سکتا ہے، چین یوکرین پر روسی حملے کے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن ماسکو کے ساتھ نہ صرف کھڑا ہے بلکہ روس کی مدد بھی کررہا ہے، عالمی سیاست کی اُٹھان یہ بتارہی ہے کہ دنیا ایک سہ قطبی جیو پولیٹیکل آرڈر کی طرف بڑھ رہی ہے جس پر امریکہ، چین اور روس کا غلبہ ہوگا، امریکہ مشکلات کے باوجود فی زماناغالب عالمی طاقت ہے، چین تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور روس، اقتصادی اور آبادیاتی چیلنجوں کے باوجود اہم فوجی اور اسٹریٹجک کھلاڑی ہے،حالیہ چند سالوں میں روس اور چین کا باہمی تعاون امریکی بالادستی کی مشترکہ مخالفت پر مبنی تھا، چین اور روس ایک ایسے عالمی نظام کی وکالت کرتے ہیں جہاں امریکہ اب عالمی اداروں پر حاوی نہ ہو، اس صورت حال میں امریکہ کی موجودہ قیادت یہ سوچ رہی ہے کہ دنیا کیلئے نیا جیو پولیٹیکل آرڈر تشکیل دیا جائے جس میں چین اور روس اُس کے اتحادی کے طور پر جنگوں اور تنازعات کی انسداد کیلئے باہمی طور پر کوششیں کریں، ان میں سے بہت سے فلیش پوائنٹ جوایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں مثلاً یوکرین، تائیوان، یا مشرق وسطیٰ عالمی عدم استحکام کو جنم دیتے ہیں، یہاں ہمیں امریکہ روس اور چین کے مفادات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا جو اکثر مقامات پر متصادم ہیں، اسرائیل مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا درینہ اتحادی ہے،کیا تینوں ملک ملکراسرائیل اور فلسطین کے درمیان اختلافات دور کرسکتے ہیں؟
یہ بہت اہم سوال ہے، چلیں یوکرین کو روس کا تابع مہمل بنادیتے ہیں اور چین کی تائیوان پر اجارہ داری تسلیم کرلیتے ہیں ،اس طرح تو نیو جیو پولیٹیکل آرڈر کمزور قوتوں کو اِن کے حقوق سے محروم کرنے کا سبب ہوگا، چین اور ہندوستان کے درمیان سرحدی اور پانی کے بہاؤ کو روکنے کی چینی کوششوں کو لیکر تنازعات موجود ہیں، چین کیوں ہندوستان کے حق کو مانے گا جبکہ خود ہندوستان مسئلہ کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت حل کرنے کو تیار نہیں ہے، اس اُصول سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا کے مسائل کا حل انصاف کے ذریعے ممکن ہے، نیو جیو پولیٹیکل آرڈر میں شامل ممالک سے انصاف کی توقع رکھنا عبث ہوگا کیونکہ وہ طاقت پر بھروسہ کرکے اپنے مفادات کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں، اسی لئے دنیا کا ہر انسان مسیحا کا منتظر ہے۔
نوٹ: جی ٹی وی نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.