ایران کے خلاف جوہری ہتھیار بہانہ، نظام نشانہ ہے

ایران کے خلاف جوہری ہتھیار بہانہ، نظام نشانہ ہے
جوہری ہتھیار بہانہ، نظام نشانہ ہے۔
امریکہ، اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کی اسلامی ممالک پر جارحیت کی ایک تاریخ رہی ہے، جس میں جھوٹے بیانیے کا سہارا لے کر عراق، افغانستان، لیبیا، شام اور اب ایران جیسے اسلامی ممالک پرچڑھائی کی گئی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان خودمختار اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، جس ایک بنیادی مقصد اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔
اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے 1999 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب
Fighting Terrorism: How Democracies Can Defeat Domestic and International Terrorists
میں پانچ اسلامی ممالک کو نام نہاد دہشت گردی کا مرکز قرار دیا تھا، جن میں ایران، عراق، شام، لبیبا اور سوڈان شامل تھے۔ نیتن یاہو نے اپنی کتاب میں مغربی حکومتوں اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ دہشت گردی سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ ان ممالک میں حکومتوں کا تختہ الٹا جائے۔ حقیقت حال یہ تھی کہ ایران، عراق، شام، لبیبا اور سوڈان دہشت گردی میں ملوث نہیں تھے، بلکہ کسی نہ کسی طرح سے اسرائیل کے خلاف جاری مزاحمت کی مدد کر رہےتھے اور اسرائیل ان ممالک کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتا تھا۔
ان ممالک میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے مختلف جھوٹے بیانیے تشکیل دیے گئے۔ نان الیون کے بعد امریکہ، برطانیہ اور ان کے دیگر مغربی اتحادیوں نے عراق پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا الزام عائد کیا، جس کو مغربی میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، یوں 2003 میں امریکہ، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر چڑھائی کر کے وہاں صدام حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ امریکی حملے اور قبضے کی وجہ سے دس لاکھ عراقی لقمہ اجل بن گئے۔
2009 میں برطانیہ میں سرجان چلکوٹ کی سربراہی میں برطانیہ کے عراق جنگ میں کردار متعلق ایک انکوائری شروع ہوئی، 2016 میں سامنے آنے والی سرکاری رپورٹ میں کہا گیا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیارموجود نہیں تھے اور عراق پر قبضے کے لیے برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ کے ساتھ امریکی سی آئی اے اور دیگر مغربی ممالک کی خفیہ اداروں نے عراق کے خلاف ایک جھوٹا بیانیہ ترتیب دے کر وہاں اسرائیل مفادات کے لیے صدام حکومت کا تختہ الٹا اور 2006 میں صدام کو پھانسی پر لٹکا کر اسرائیل کے ایک دیرینہ دشمن سے اسے نجات دلا دی گئی۔
2011 میں لیبیا کے صدر معمر قذافی پر اپنے شہریوں کےبڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کا الزام لگا کر امریکہ و نیٹو ممالک نے کاروائی شروع کردی، حالانکہ معمر قذافی 2003 میں لیبیا کا جوہری پروگرام اور بیلسٹک میزائل پروگرام ترک کر چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود معمر قذافی کا صرف اس لیے تختہ الٹا کہ وہ اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست تصور کرتے تھے اور اس کے خلاف برسرپیکار فلسطینی گروپوں کی مدد کرتے تھے۔ امریکہ و نیٹو کی مداخلت سے لیبیا میں خانہ جنگی شروع ہوئی، ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے، پانچ لاکھ شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ بعد ازاں اکتوبر 2011 میں معمر قذافی کو باغیوں کے ہاتھوں قتل کروا دیا گیا۔
امریکہ و مغربی ممالک نے میڈیا کی مدد سے قذافی کے خلاف ایک ظالم و جابر ڈیکٹیٹر کا بیانیہ تشکیل دیا، جس سے لیبیا کے لاکھوں افراد کی جان کو خطرہ لاحق تھا، لیکن قذافی کا اصل جرم اسرائیل دشمنی تھا، جس کی اسے سزا دی گئی۔ اگر قذافی اور صدام دیگر عرب ممالک کی طرف امریکہ و اسرائیل کے حامی ہوتے تو مشرق وسطی کے دیگر عرب ڈیکٹیٹڑز کی طرح ان کے اقتدار کا بھی تحفظ کیا جاتا۔
موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے سوڈان میں بھی تختہ الٹنے کی بات کی تھی۔ سوڈان اور اسرائیل کے درمیان دشمنی کا آغاز عرب-اسرائیل تنازعے سے ہوا، جہاں سوڈان نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی بھرپور حمایت کی اور اسرائیل کو ایک غاصب ریاست تسلیم کیا۔ 1967 میں خرطوم کانفرنس میں عرب دنیا کے تین ’نہیں‘ (اسرائیل سے نہ امن، نہ مذاکرات، نہ تسلیم) کا مرکز سوڈان بنا، جس نے اسرائیل مخالف پالیسی کو دوام دیا۔ 2011 میں عیسائی اکثریتی جنوبی سوڈان کو الگ کر دیا گیا، اس علیحدگی کے پیچھے امریکہ اور مغربی ممالک نے اہم کردار ادا کیا، جس کا مقصد سوڈان کو اس کے اسرائیل مخالف تاریخی موقف کی سزا دینا تھا۔
2011 میں شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف شورش کا آغاز کیا گیا، شام پر بھی اپوزیشن کو کچلنے اور کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا، ایک بار پھر مغربی میڈیا جھوٹا بیانیہ تشکیل دینے کے لیے امریکی و اسرائیلی ماوتھ پیس بنا۔ شام کا اصل جرم تحریک آزادی فلسطین کی عملی حمایت تھا۔ شام نے اسرائیل کے خلاف چار جنگیں لڑیں اور بعد ازاں ایران کے ساتھ مل کر فلسطینی جنگجو گروپوں کی اپنی سرزمین سے عملی مدد جاری رکھی، دسمبر 2024 میں القائدہ اور داعش سمیت مختلف دہشت گرد تنظیموں کی مدد سے بشار الاسد حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، جس کے بعد اسرائیل نے شام کے بڑے علاقے پر قبضہ کر کے اس کی تمام فوجی صلاحیت کو تباہ کر دیا۔ یوں اسرائیل اور نیتن یاہو اپنے ایک اور دشمن سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنی کتاب میں جن اسلامی ممالک میں تختہ الٹنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا وہ دراصل صیہونی اسٹبلشمنٹ کا ایک جامع منصوبہ تھا، جس کے لیے مغربی حکومتوں اور رائے عامہ کو تیار کرنے کے لیے نیتن یاہو کی کتاب کی شکل کوششوں کا آغاز ہوا۔ پچھلے 25 سال میں اسرائیل، امریکہ اور مغربی اتحادیوں کی مدد سے عراق، لیبیا، شام اور سوڈان میں حکومتوں کا تختہ الٹ چکا ہے۔
اس وقت ایران کے خلاف جو کاروائی جاری ہے، اس کی بظاہر وجہ ایران کا جوہری پروگرام قرار دیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اسرائیلی و امریکی بیانیہ ہے، جس کو ماضی کی طرح مغربی میڈیا عوام کے سامنےپیش کر کے ایک خودمختار ملک پر جارحیت کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکی ڈائریکٹر انٹیلیجنس ٹلسی گیبرڈ نے مارچ 2025 کی رپورٹ میں کہا کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا۔انہوں نے واضح کیا کہ ایران نے 2003 میں جوہری ہتھیاروں کا پروگرام معطل کیا تھا اور اسے دوبارہ شروع کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے 12 جون کو اختتام پذیر ہونے والے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں بھی ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کا الزام عائد نہیں کیا، بلکہ جوہری عدم پھیلاو کے معاہدے این پی ٹی پر من و عن عمل درآمد نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
ایران کا اصل جرم تحریک آزادی فلسطین کی عملی مدد کرنا ہے، جس کی اسے سزا دی جا رہی ہے، اسرائیل بلخصوص نیتن یاہو ایران میں موجود نظام کا تختہ پلٹ کر اپنے 25 سالہ ناپاک منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے، جس کے تحت اسرائیل مخالف اسلامی ممالک عراق، لیبیا، شام اور سوڈان میں حکومتوں کا تختہ پلٹا گیا۔
چونکہ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کی زمین پر قبضے سے وجود میں آیا ہے، اس لیے وہ ہر ایسے اسلامی ملک کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے، جس کے پاس مضبوط فوجی صلاحیت ہو۔ ایران میں بھی بظاہر جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن اسرائیل کا اصل نشانہ 1979 کے بعد ایران میں قائم ہونے والا اسرائیل دشمن انقلابی نظام ہے۔ نیتن یاہو ایران میں نظام حکومت کا تختہ الٹ کر اپنی دہائیوں پرانی خواہش پوری کر کے اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے والی آخری چٹان کو بھی گرانا چاہتا ہے۔ اس لیے اسلامی ممالک کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سلسلہ یہاں پر رکنے والا نہیں، ایران کے بعد وہ تمام اسلامی ممالک بھی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنیں گے، جن کے پاس مضبوط فوج، میزائل و جوہری پروگرام موجود ہیں۔
میں آج زد پے اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.