رافیل گروسی کا بیان اور امریکی و اسرئیلی بیانیے کا جنازہ

Rafael Grossi Satement
اسرائیل نےعالمی قوانین کو پاوں تلے روندتے ہوئے ایک خود مختار ملک ایران پربلا اشتعال جارحیت کا ارتکاب کیا ہے، امریکہ اور اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اس کھلی جارحیت اور قانون شکنی کےجواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کا پورا مقدمہ اس جھوٹے الزام پر قائم ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔ حالانکہ مارچ میں امریکہ کی ڈائریکٹر انٹیلیجنس تُلسی گیبرڈ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ برملاء کہا تھا کہ ایران کے جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ثبوت موجود نہیں، امریکہ کی پوری انٹیلیجنس کمیونٹی مستند معلومات کی بنیاد پر یقین رکھتی ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا۔
2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جامع جوہری معاہدے کے بعد بین الاقوامی جوہری توانانی ایجنسی ایک درجن سے زائد رپورٹوں میں یہ بتا چکی ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا۔ اس کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پچھلی مدت صدارت کے دوران 2018 میں اسرائیلی ایماء پر یک طرفہ پر اس معاہدے سے علیحدہ ہو گئے۔
اسرائیل کا ایران پر حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے، جس کے آرٹیکل 2 کی شق 4 کہتی ہے ” تمام رکن ممالک اپنی بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت یا سیاسی خودمختاری کے خلاف طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی سے باز رہیں گے، یا کسی بھی ایسے طریقے سے عمل نہیں کریں گے جو اقوام متحدہ کے مقاصد سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔”
امریکی اور اسرائیلی الزامات درست بھی مان لیا جائے تو صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل وہ لیگل عالمی فورم ہے، جو کسی ریاست کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دے سکتا ہے۔ کسی بھی ریاست کے خلاف طاقت کے استعمال کے لیے سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ چارٹر کے چیپٹر 7 کے تحت قرارداد کو 15 میں سے کم از کم 9 ممالک کی حمایت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے کوئی بھی اس قرارداد کے خلاف حق تنسیخ یا ویٹو پاور استعمال نہ کرے۔
امریکہ اور اسرائیل ایران کے خلاف غیرقانونی کاروائی کے لیے سلامتی کونسل میں قرارداد پیش نہیں کی، کیونکہ روس اور چین کی سلامتی کونسل میں موجودگی اور ایران کے ساتھ قریبی سفارتی تعلقات کی وجہ سے یہ بات یقینی تھی کہ سلامتی کونسل میں اس قرارداد کو ویٹو کر دیا جائے گا، دیگر غیرمستقل ارکان کی طرف سے بھی حمایت ملنا مشکل امر تھا۔
اس صورت میں امریکہ اور اسرائیل نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے پلیٹ فارم کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ عالمی جوہری توانائی ایجنسی بظاہر اقوام متحدہ سے منسلک ہے، لیکن یہ اقوام متحدہ کا براہ راست ماتحت ادارہ نہیں، بلکہ ایک خودمختار بین الاقوامی تنظیم ہے جو اقوام متحدہ کے ساتھ معاہدے کے تحت تعاون کرتی ہے۔ اس کا مینڈیٹ جوہری توانائی کو امن و ترقی کے لیے استعمال کرنے تک محدود ہے۔ اس کی کسی بھی قرارداد کی بنیاد پر کسی ریاست کے خلاف جنگ شروع کرنا غیرقانونی ہے۔
لیکن کیونکہ امریکہ و اسرائیل کے پاس ایران کے خلاف کاروائی کا کوئی ٹھوس جواز نہیں تھا، اس لیے کاروائی سے پہلے عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس بلایا گیا، جس نے 12 جون کو ایران کے خلاف قرارداد منظور کی، جس میں ایران پر جوہری عدم پھیلاو کے معاہدے این پی ٹی تحت عائد ذمہ داریاں ادا نہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔ آئی اے ای اے کی قرارداد کے مطابق، ایران نے ماضی میں متعدد مرتبہ عالمی ادارے کو اپنے جوہری پروگرام کے کئی حصوں تک رسائی نہیں دی۔ البتہ آئی اے ای اے نے بھی ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی الزام عائد نہیں کیا۔ ایران نے قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے اسے سیاسی قرار دیا اور ادارے کے ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی پر جانبداری اور امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ہاتھوں استعمال ہونے کا الزام عائد کیا۔
اسرائیل نے خاموش امریکی حمایت سے ایران پر جارحیت کی، جس کا ایران بھرپور جواب دے رہا ہے۔ لیکن آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے امریکہ اور اسرائیلی بیانیہ کا جنازہ نکال دیا ہے۔ گروسی نے سی این این اور الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں جس کی بنیاد پر کہا جا سکے ایران جوہری ہتھیار بنانے کی منظم کوشش کر رہا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب نہیں تھا اور نہ اس کے پاس جوہری دھماکہ کرنے اور جوہری وار ہیڈ بنانے کی صلاحیت تھی، انھوں نے کہا ہے ایران جوہری بم بنانےسے سالوں دور تھا، جبکہ امریکہ و اسرائیلی موقف ہے کہ ایران جوہری بم سے ہفتوں کے فاصلے پر تھا۔ رافیل گروسی اس بیان سے اپنے منہ پر لگی اس کالک کو دھونا چاہتے ہیں جو انھوں نے امریکہ و اسرائیل کے ہاتھوں استعمال کر کے اپنے چہرے پر ملی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے رافیل گروسی کے نئے بیان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا اب بہت دیر ہو چکی ہے، انھوں نے مزید کہا کہ آپ کی رپورٹ نے امریکہ اور برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو ایران کے خلاف ایک بے بنیاد قرارداد تیار کرنے میں مدد دی، جسے بعد میں اسرائیل جیسے جنگ پسند اور نسل کشی کرنے والے ملک نے ایران پر جارحیت کے جواز کے طور پر استعمال کیا۔ اس حملے کے نتیجے میں معصوم ایرانی شہری ہلاک و زخمی ہوئے، اور ایران کی پرامن جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے گروسی پر الزام لگایا کہ انہوں نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی جیسے ادارے کو غیر جانبداری سے ہٹا کر ایسے سیاسی ہتھیار میں تبدیل کر دیا جو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کے غیر جوہری رکن ممالک کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر رہا ہے، اور ان اقدامات پر احتساب ضروری ہے۔
رافیل گروسی کے نئے بیان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور اس کےمغربی اتحادیوں نے عراق کی طرح ایران کے خلاف بھی غیرقانونی جارحیت کا ارتکاب کر کےعالمی قانون کی ایک بار پھر دھجیاں بکھیردی ہیں، جس پر ان ممالک کا احتساب ہونا چاہیے، لیکن جب اقوام متحدہ ان ممالک کی کے ہاتھوں ایک کھلونہ بن جائے تو سوال یہ ہے کہ ان جارح و قانون شکن ممالک کا احتساب کون کرےگا؟
ستاون اسلامی ممالک کو اب آنکھیں کھولتے ہوئے یہ باور کرنا چاہیے کہ اقوام متحدہ اب مکمل بے اثر ہو چکا ہے اور دنیا جنگ عظیم دوم سے پہلے کے دور میں واپس جا چکی ہے، جہاں قانون و انصاف پر مبنی کوئی نظام موجود نہیں تھا اور جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج تھا۔ جنگی جنون میں مبتلاء اسرائیل ایک کے بعد ایک اسلامی ملک پر چڑھ دور رہا ہے، غزہ و لبنان کے نہتے مسلمانوں سے لے کر مضبوط فوجی طاقت، میزائل و جوہری ٹیکنالوجی سےلیس ہر طاقتور اس کے نشانے پر ہے، ایسے میں کیا مسلمان ممالک صرف قراردادوں اور اعلامیوں سے اپنا دفاع کریں گے، یہ وہ سوال ہے جس پر ہر مسلمان حکمران کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.