تنازعہ کشمیر عالمی فورم پر حل طلب مسئلہ ہے بلوچستان میں بدامنی سے منسلک کرنا دانشمندی نہیں

Terrorist Attack by Fitna-e-Hindustan in Balochistan: 9 Passengers Shot Dead After Identification from Buses Heading to Punjab
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان باہمی تعاون کے اس درجے پر پہنچ جائیں جہاں ہم درحقیقت ہندوستان کے ساتھ لابنگ کریں کہ ہندوستان سے متعلقہ گروپوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے دہشت گرد قرار دیا جائے، اسکے ساتھ ہی ہندوستان بھی بلوچ لبریشن آرمی اور مجید بریگیڈ جیسی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دلوانے کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے، انڈین ڈیجیٹل پلیٹ فارم دی وائر کے اینکر پرسن کرن تھاپر نے کہا کہ ہندوستان نے تین بار کوشش کی کہ اقوام متحدہ میں اس گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے لیکن چین نے پاکستان کے کہنے پر اسے روکا، اس پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کسی بھی دہشت گرد گروہ کو ہندوستان یا کسی اور ملک میں حملوں کی اجازت نہیں دیتا، اس پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کسی بھی دہشت گرد گروہ کو ہندوستان یا کسی اور ملک میں حملوں کی اجازت نہیں دیتا، بلاول بھٹو نے مزید کہا اگر واقعی پہلگام واقعہ میں پاکستان ملوث ہوتا تو آج کے دور میں سیٹلائٹ اور سائنسی ٹیکنالوجی کے ذریعے سب کچھ سامنے آجاتا، ہندوستانی عوام کو سچ بتایا جائے کہ انہیں اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے حوالے سے جھوٹ بتایا گیا، بلال بھٹو زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر انڈیا پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگاتا ہے تو پاکستان بھی ہندوستان سے یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ وہ بلوچ آرمی جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے، انہوں نے کہا کہ ماضی میں افغانستان میں جہاد کے دوران عالمی طاقتوں نے ایسے گروپس کو سپورٹ کیا تھا لیکن اب پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سخت کارروائیاں کی ہیں، بلاول بھٹو نے کہا کہ میری نسل ماضی کی قید میں نہیں رہنا چاہتی، ہمیں ماضی کو تسلیم کرتے ہوئے مستقبل کیلئے راستہ نکالنا ہو گا اوردونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں اور نوجوان نسل کو نفرت اور دشمنی سے نکال کر امن کی طرف لے جائیں۔
اگرچہ بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ نہیں ہیں لیکن وہ سابق وزیر خارجہ کا لاحقہ لگانے کے حقدار ہیں، اس کیساتھ وہ سندھ کی سب سے بڑی جماعت کے چیئرمین بھی ہیں، بلاول جو باتیں کررہے ہیں یقیناً انہیں ملک کی مقتدرہ کی تائید حاصل ہوگی اور ڈپلومیسی اسی طرح ہوتی ہے لیکن یہاں ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہندوستان نے پاکستان کے مستقل پالیسی سازوں کو یہاں لاکھڑا کیا ہے کہ وہ ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر کی جد وجہدآزادی کو بلوچستان میں بدامنی سے ملاکر دیکھنے لگے ہیں ، بلوچستان میں عسکریت پسند بلوچوں کے جائز حقوق کے حصول کیلئے سرگرم ہیں ، جسکی اہم وجوہات میں ملکی اشرافیہ کی کرپشن اور قومی وسائل کی لوٹ مار ہے،کشمیر کا معاملہ عالمی سطح پرتسلیم شدہ متنازعہ مسئلہ ہے جس کو سرد خانے سے نکالنے کیلئے پاکستان کوہر وہ قدم اُٹھانا ہوگا جس سے عالمی برادری کی توجہ اس انسانی مسئلہ پر مرکوز ہوسکے تاکہ ہندوستان اقوام متحدہ کی قراردادوں یا شملہ معاہدے کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کیلئے میز پر آئے،کشمیر ،تقسیم ہند سے وابستہ کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے، مسئلہ کشمیر کو حل ایک قوم کے مستقبل سے وابستہ ہے جسکی شناخت مسلم تمدن سے بندھی ہے، کشمیری زبان فارسی اور اردو کے نستعلیق رسم الخط میں دائیں سے بائیں کی جانب لکھی جاتی ہے اردو کے الفاظ اور انداز سے قریب ہے البتہ جموں کے ہندو پنڈت کی زبان دیوناگری ہے جس کیلئے ہندی و سنسکرت رسم الخط استعمال ہوتا ہے جو کشمیر کی کُل آبادی کا محض 2 سے 3 فیصد ہیں، دنیا کس طرح واضح اکثریت کے حق خودارادیت کو نظر انداز کرسکتی ہے پھر ہمیں یہ بھی یاد رہے کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی کی شہ رگِ حیات قرار دیا ہے، بلوچستان کا مسئلہ کشمیر کے تنازعہ سے بالکل مختلف ہے، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکوں کے پیچھے استعمار کے مذموم عزائم ہیں ، بلوچستان کی واضح اکثریت علیحدگی پسند نہیں ہے البتہ اغیار کی مذموم کوشش ہے کہ خطے کو غیر مستحکم کرنے کیلئے راک کو چنگاری بننے کیلئے باقی رکھا جائے، جس میں فی الوقت ہندوستان ، متحدہ عرب امارات اور امریکہ سر فہرست ہیں جو نہ صرف کی مالی مدد ، جدید اسلحہ اور سٹیلائٹ کی مدد فراہم کررہے ہیں، ہندوستان کے پالیسی سازوں نے نہایت عرق ریزی کے بعد بلوچستان میں اپنا اثرو رسوخ بڑھایا تاکہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریک سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیں ، جب بلاول بھٹو کشمیر کی جد وجہد آزادی کو بلوچستان میں بدامنی سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ غیرارادی طور پر ہندوستان کی چال کو کامیاب بنارہے ہوتے ہیں۔
بلوچستان کے لوگوں کو اپنے جائزحقوق کی پامالی، سرداری نظام اور مخصوص اشرافیہ کیوجہ سے حکومت اور سکیورٹی فورسز سے شکایات ہیں، بلوچستان کی حکومت چلانے والے عام بلوچوں کے حقیقی مسائل سے غافل نظر آتے ہیں، وہ اپنی طاقت بلوچ عوام کے بجائے طاقت کے دوسرے منابع سے حاصل کررہے ہیں، جس نے بلوچستان کو بدامنی کی آماجگاہ بنادیا ہے، بلوچستان میں عوام سیاسی جماعتوں سے متنفر ہیں اور تشدت کی طرف مائل ہیں حالانکہ اسی طرح کی شکایات پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخواہ میں بھی مختلف گروہوں کو بھی ہیں مگر ایک خالصتاً داخلی معاملے کو بین الاقوامی طور پر مسلمہ تنازعہ سے منسلک کرنا ہرگز دانشمندی نہیں ہے، پاکستان کو درپیش مسائل کا حل آئین پر عمل کرنے سے مشروط ہے جو ملک کوحقیقی جمہوری نظام دیتا ہے اورعدالتوں کو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد کرتا ہے پاکستان وسائل سے بھرپور مملکت ہے ،ملک کی اشرافیہ کی بدعنوانیاں محدود کرکے ہم ملک کے 50 فیصد مسائل حل کرسکتے ہیں۔
اس سےقبل بھی بلاول بھٹو زرداری غلطی کرچکے ہیں جب الجزیرہ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بلاول بھٹو نے لشکرِ طیبہ کے سربراہ حافظ سعید اور جیشِ محمد کے مسعود اظہر کو ہندوستان کے حوالے کرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات ہوں، جس میں دہشت گردی کے مسئلہ پر بات ہو تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان کو ان معاملات پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، یہ موضوعات بہت زیادہ حساس ہیں بلاول بھٹو کو ایسے معاملات پر محتاط رہنا چاہیے کیونکہ ہندوستان اسی طرح کی لغو باتوں کو بطور ریفرنس استعمال کرتا ہے ، پاکستان پہلے ہی، وزیر دفاع خواجہ آصف کی دہشت گردوں کی حمایت کرنےکے اعتراف پر مبنی ہرزہ گوئی کی قیمت چکا رہا ہے۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.