امریکی دباؤ مسترد؛ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا

Netanyahu meets President Trump for the second time in two days, no statement issued
امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے امریکا کی جانب سے کوئی دباؤ نہیں ہے، ڈیلاس، ٹیکساس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، سفیر نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کا موقف غیر متزلزل ہے اور اس کی جڑیں ملک کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کے وژن میں جڑی ہیں، رضوان شیخ نے بار دیگر نہایت پُر زور انداز میں کہا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں امریکہ کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہے، امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیر شیخ کا بیان ابراہیمی معاہدے کو وسعت دینے کی امریکی کوششوں کے بارے میں پاکستانی عوام کی واضح ترین اکثریت کی بڑھتی ہوئی تشویش کے دوران سامنے آیا ہے، واضح رہے ابراہیمی معاہدے کا مقصد اسرائیل اور مسلم ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے، وائٹ ہاؤس میں پاکستان کے فیلڈ مارشل اور ٹرمپ کی ٹیم کے درمیان لنچ کے دوران بات چیت سے پاکستانی عوام خوفزدہ تھے کہ کہیں پاکستان نے ابراہمی معاہدے میں شامل ہونے کی یقین دہانی تو نہیں کرادی مگر رضوان شیخ کے بیان نے پاکستان کی 98 فیصد لوگوں میں اطمینان پیدا کیا ہے جبکہ دو فیصد سیکولر افراد کی اُمیدوں کو بھسم کردیا ہے، اگرچہ ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کیلئے پر اب بھی بے چین ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران 13 مئی 2025ء کو اپنے پہلے غیرملکی دورے کیلئے سعودی عرب کا انتخاب یوں ہی نہیں کیا، اس دو روزہ دورہ ریاض کے دوران شام میں القاعدہ کے سابق رہنما اور شام کی مسلح گروہوں پر مشتمل عبوری انتظامیہ کے سربراہ احمد الشارع سے ملاقات کے علاوہ دوسرا اہم موضوع سعودی عرب کا معاہدہ ابراہیمی میں شمولیت تھا، 7 اکتوبر 2023ء میں حماس کی جانب سے مسلسل ٹارگٹ کلنگ اور غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کے خلاف طوفان الاقصیٰ آپریشن سعودی حکمرانوں کیلئے ناگوار حقیقت تھی لہذا ریاض، انقرہ اور دبئی نے اسرائیلی فوج کی غزہ پر بربریت کے جواب میں بہت عرصے تک اسرائیل کی خاموش حمایت جاری رکھی اور جب عرب عوام میں غم غصّہ بڑھنے لگا تو غزہ کے متاثرین کیلئے غذائی اور روزمزہ استعمال کی اشیا پر مشتمل امداد کا سلسلہ شروع کیا، شہزادہ محمد بن سلمان نے اگست 2024 میں ایک انٹرویو میں واضح کیا تھا کہ اُنہیں سعودی عرب اور اسرائیل کے روابط کے قیام پر ذاتی طور پر اعتراض نہیں ہے مگر عرب نوجوان مجھے قتل کردیں گے اگر میں نے ایسا کیا اُنھوں نے زور دیکر کہا کہ انہیں ذاتی طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہے، پاکستان کی مقتدرہ اور بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات قائم کرتا ہے تو اسلام آباد بھی تل ابیب سے سفارتی تعلقات قائم کرلے مگر اس بیہودہ فکر کے حامیوں کی تعداد بہت کم ہے جس میں سکیولر کے علاوہ مذہبی شخصیات بھی شامل ہیں۔
واشنگٹن میں تعینات رضوان شیخ کا غیر معمولی بیان پاکستان کی ثابت قدم خارجہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، جس نے مسلسل فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کی ہے اور اسرائیل کو غاصب ریاست سمجھتے ہوئے کسی بھی رسمی طور کی مخالفت کی ہے، امریکی صدر ٹرمپ کے متعلق سمجھا جارہا تھا کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کیلئے اسلام آباد میں دباؤ ڈالیں مگر وہ ایک اپنے عزائم میں ناکام صدر ثابت ہورہے ہیں، وہ اب بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی کی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں متمکن ہیں جبکہ اُنھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکی اسٹیبلشمنٹ کو لگام ڈالنے پر اصرار کیا تھا اور امریکی عوام نے اسی بنیاد پر ٹرمپ کو صدر منتخب کیا تھا، وہ جانتے ہیں کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اُن کے ٹیکس کے پیسے کک بیک کے علاوہ اسرائیل کے معاشی اور دفاعی تعاون کیلئے خرچ کررہی ہے، امریکی اسٹیبلشمنٹ مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی اڈوں کو اسرائیل کے دفاع کیلئے ناگزیر سمجھتی ہے حالانکہ اِن کے اخراجات 100 بلین ڈالر سے بڑھ چکے ہیں، یقیناً اس میں امریکی اشرفیہ کا کک بیک بھی شامل ہوگا، معاہدہ ابراہیمی کا ایک اہم مقصد اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے، امریکی تھنک ٹینک 1998ء سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو یہ بتاتے چلے آرہے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کے دفاع اور معیشت کیلئے پیسہ خرچ کرنے کے قابل نہیں رہے گا اور وہ وقت آچکا ہے، امریکہ میں بیروزگاری اور بے گھر افراد کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ اور عوامی فلاح اور بہبود کیلئے ریاستی فرائض میں بتدریج کمی امریکی معاشرے میں انتشار پیدا کررہا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری مدت کیلئے منصب صدارت سنبھالے ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ امریکہ بھر میں 5 ملین امریکی سڑکوں پر نکل آئے اور جسکی تھیم(مرکزی خیال) نو کنگ تھا، ٹرمپ کو اِن مظاہروں سے شدید دھچکا لگا ہے، امریکی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ معاہدہ ابراہیمی کے تحت مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بالادستی قائم کی جائے تاکہ یہ غاصب ریاست عربوں سے بھتہ وصول کرکے عربوں کو غلاموں والی زندگی گزارنے پر مجبور کردے، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غاصب اسرائیل صیہونیت نظریہ پر وجود میں آئی ہے اور صیہونیت کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
محترم سفیر رضوان شیخ نے بتایا کہ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں دوطرفہ مفادات پر مبنی خوشگوار آغاز ہوا ہے اُنھوں نے کہا کہ دونوں ممالک تعاون کو مضبوط بنانے کیلئے کام کررہے ہیں، سفیر محترم نے درست معلومات فراہم کی ہیں کیونکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے ایبسولیوٹلی ناٹ کی پالیسی نے امریکہ کو مشکل میں ڈال دیا تھا اور جس کے نتیجے میں پاکستان سیاسی بحران کا شکار ہوا، رضوان شیخ نے تجارت، توانائی اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں پر روشنی ڈالی جہاں دو طرفہ تعلقات بہتر ہورہے ہیں، رضوان شیخ نے نشاندہی کی کہ بڑھتے ہوئے تعلقات عالمی چیلنجوں سے نمٹنے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں باہمی مفادات کی عکاسی کرتے ہیں، واضح رہے کہ امریکی اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں نئی پیشرفت کے ساتھ اسلام آباد حکومت اور فوجی مقتدرہ کا مقصد جدیدت اور امریکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے، امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بظاہر دکھائی جانے والی بہتری دونوں ممالک اقتصادی تعاون اور باہمی فائدے پر مرکوز ہونی چاہیے، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں واشنگٹن کی عیاری مسلمہ حقیقت ہے اس پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے لیکن ہمیں اس بات کی داد دینا پڑے گی کہ پاکستان کے اعلیٰ سفارتکار نے دو ٹوک انداز میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے خطرے کو یکسر مسترد کردیا۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.