شام پر اسرائیلی حملے اور گریٹر اسرائیل کا منصوبہ

Israeli attacks on Syria and the Greater Israel plan
اسرائیلی سرحد کے قریب واقع شام کے جنوبی علاقے اس وقت شورش کا شکار ہیں، جہاں اسرائیلی حمایت یافتہ دروزی مسلح قبائل اور شام کی نئی حکومت کے جنگجووں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ہے، لڑائی کا آغاز 13 جولائی کو دروزی اور بدوی قبائل کے درمیان لڑائی سے ہوا، جس کے بعد شامی فوج صوبہ میں داخل ہو گئی۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ان جھڑپوں میں دو سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اسرائیل نے دروزی مسلح گروپوں کی مدد کےلیےشام کے فوجیوں پربمباری کی، اور سویدا سے نکل جانے کا مطالبہ کیا۔ شامی حکومت نے دروزی مسلح گروپوں کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان بھی کیا، لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے دارالحکومت دمشق میں وزارت دفاع، فوج کے ہیڈکوارٹرز اور صدارتی محل کو نشانہ بنایا جس سے تین افراد جاں بحق اور چونتیس زخمی ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل شام کی نئی حکومت کو نشانہ کیوں بنا رہا ہے، جس نے اس کے سب سے بڑے دشمن بشارالاسد کا تختہ الٹا؟ کل کے دوست اسرائیل اور ترکیہ شام میں ایک دوسرے کے سامنے کیوں آ گئے ہیں؟ کیا شام میں اسرائیل اور ترکیہ کی جنگ ہو سکتی ہے؟
دروزی فرقہ کون ہے؟
شام کے دروز مذہب کے لحاظ سے مسلمان نہیں سمجھے جاتے، اگرچہ ان کی جڑیں اسلام کی بعض شاخوں خصوصاً اسماعیلیہ فرقہ میں ہیں۔ ان کے عقائد اور مذہبی رسومات اسلامی عقائد سے بہت مختلف ہیں، اسی لیے انہیں مسلم فرقہ نہیں سمجھا جاتا۔ دروز فرقہ لبنان، شام، اسرائیل اور کسی حد تک اردن میں آباد ہے۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے شام کی گولان پہاڑیوں پر قبضہ کیا تھا، جہاں دروز آباد ہیں، جنھوں نے آج تک خود کو شامی شناخت سے جوڑا ہوا ہے۔ اسرائیل کے اندر رہنے والے دروزوں کے پاس اسرائیلی شہریت ہے۔ شام میں دروز فرقہ جنوبی صوبہ سویدا میں اکثریت رکھتا ہے، جب کہ دمشق، درعا، حمص، حماہ اور حلب میں بھی دروز کم تعداد میں آبادی موجود ہے۔
اسرائیل اس کی کیوں مدد کر رہا ہے؟
بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے جنوبی شام کے 500 مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا،جس میں باقی ماندہ گولان کےعلاوہ اہم اسٹرٹیجک پہاڑی جبل الشیخ بھی شامل ہے۔ اسرائیل نے شام کے جنوبی علاقوں میں درجنوں فوجی چیک پوسٹیں قائم کی ہیں۔ جنوبی صوبوں قنیطیرہ و درعا پر اسرائیلی قبضہ ہے۔ اسرائیل نے جنوبی علاقوں میں نئی شامی حکومت کے فوجیوں کے داخلے پربھی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ صوبہ سویدا میں اسرائیلی حمایت یافتہ دروزی مسلح گروپوں کا کنٹرول ہے، جنھوں نے رواں سال مارچ میں ایک ملٹری کونسل کا اعلان کیا تھا۔ اسرائیل گولان کے علاقے سے عراقی کردستان تک ایک کاریڈور بنانے کا خواہاں ہیں، جسے ‘ڈیوڈ کاریڈور’ کہا جا رہا ہے، جس کے لیے اسرائیل شام کے جنوب میں عراقی کردستان طرز پر خودمختار اسرائیل نواز دروز حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔
ڈیوڈ کاریڈور سے اسرائیل کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
مجوزہ ڈیوڈ کاریڈور کا مقصد اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں، شام کے صوبوں درعا، دیر الزور اور الحسکہ کے راستے عراقی کردستان تک زمینی راہداری قائم کرنا ہے۔ اس کوریڈور کی بدولت اسرائیل نہ صرف فوجی اور انٹیلی جنس فوائد حاصل کر سکتا ہے بلکہ مستقبل میں تجارتی اور اقتصادی مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں، جیسے کہ توانائی کے ذخائر تک رسائی بھی شامل ہے۔ مستقبل میں عراقی کردستان سے اسرائیل تک ایک آئل پائپ لائن بچھانے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس طرح دمشق میں اسرائیل مخالف حکومت کی صورت بھی حزب اللہ کی سپلائی لائن میں رکاوٹ کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ اس کاریڈور کی مدد سے اسرائیل ایران تک زمینی راستے تک رسائی حاصل کرکے اس کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے۔ اس مجوزہ راہداری کا قیام شام، ترکیہ، ایران اور عراق سمیت پورے خطے کے لیے خطرناک ہو گا، کیونکہ اس سے اسرائیل کی اسٹراٹیجک ڈیپتھ میں بہت اضافہ ہو جائے گا، جس سے تل ابیب کو عملا مشرق وسطی پر غلبہ حاصل ہو جائے گا اور نیل سے فرات تک گریٹر اسرائیل کا ناپاک منصوبہ آگے بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔
اسرائیل اور ترکیہ شام میں آمنے سامنے کیوں آ گئے ہیں؟
بشارحکومت کےدوران ترکیہ، اسرائیل، امریکہ اور شام کےموجودہ حکمران اسد رجیم، ایران اور روس کے خلاف ایک صفحہ پرتھے۔ لیکن رجیم تبدیلی کے بعد اب اتحاد بدل گئے ہیں۔ ترکیہ اور اسرائیل کےدرمیان شام میں سردجنگ جاری ہے۔ ترکیہ ایران اور روس کے انخلاء کے بعد شام میں اس خلاء کو پر کر کےاپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کےلیے چند ماہ پہلے ترکیہ نے شام کے صوبہ حمص میں واقع ٹی فور ائیربیس پراپنا فوجی اڈہ قائم کرنے کی کوشش کی تو اسرائیل نے ائیربیس پر بمباری کردی۔ اسرائیلی وزیردفاع اسرائیل کتز نے کہا کہ یہ صدر رجب طیب ایردوان کے لیے ایک پیغام ہے، اسرائیل ترکیہ کو شام میں فوجی اڈے بنانے کی اجازت نہیں دے گا۔ حالانکہ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ گہرے سیاسی، سفارتی و معاشی تعلقات ہیں اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے پہلےدونوں ملکوں کےدرمیان 9 ارب ڈالرسےزائد دوطرفہ تجارت تھی، دونوں ممالک نے ایران اور روس کے خلاف شام میں ایک دوسرے سے بھرپور خفیہ تعاون کیا۔ اس کےباوجود اسرائیل ترکیہ کی شام میں موجودگی اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ ترکیہ کے اخوان المسلون کے ساتھ گہرے نظریاتی تعلقات ہیں، صدر ایردوان اسلام کی قیادت اور نیو خلافت عثمانیہ بھی قائم کرنے کےخواہش مند ہیں، اس لیے مستقبل میں ترکیہ حما۔س جیسے جہادی گروپوں کے ساتھ مل کر ایران کی طرح اسرائیلی سرحدوں کا گھیراو کر سکتا ہے۔
کیا شام میں اسرائیل اور ترکیہ کی جنگ ہو سکتی ہے؟
شام میں ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد دونوں ملکوں کے آزربائیجان میں مذاکرات ہوئے جن کا مقصد ایسا میکنزم بنانا تھا، جس کےتحت شام میں دونوں ممالک کا ٹکراو نہ ہو۔ ترکیہ اسرائیل کے ساتھ براہ راست تصادم کے بجائے امریکہ کے زریعے شام میں اسرائیلی جارحیت کو روکنا چاہتا ہے۔
اسرائیل کے شام پر حالیہ حملوں کے بعد ترکیہ، ایران اور امریکہ کا موقف؟
ترکیہ نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے شام میں قیامِ امن، استحکام اور سیکورٹی کی کوششوں کو تباہ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ایران نے بھی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے علاقائی ممالک کو اسرائیلی جارحیت کےخلاف متحد ہونے کی تاکید کی ہے۔ امریکہ نے شامی فوجیوں کو صوبہ سویدہ سمیت جنوبی علاقوں سے انخلاء کی ہدایت کی ہے۔ امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو کے مطابق فریقین کشیدگی کم کرنے پر راضی ہو گئے ہیں، اور لڑائی ختم کرنے کے لیے تمام فریقین کو مخصوص وعدوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ امریکہ نے اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے شامی جنگجووں کو جنوبی علاقوں سےنکل جانے کے بدلے حملے رکوانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
شام کے جنوبی اہم اسٹراٹیجک مقامات سمیت پانچ سو مربع کلومیٹر کے علاقے پر اسرائیلی قبضے، شامی علاقے میں درجنوں چیک پوسٹیں قائم کرنے، دروز فرقے کی سرپرستی و عملی مدد اور سویدہ و دمشق میں مسلسل حملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل شام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل شام کے ترکیہ کے قریبی تعلقات سے بھی خائف ہے اور دمشق میں کسی بھی مستحکم حکومت کے قیام کے خلاف ہے۔ اسرائیل شام میں ایک ایسی حکومت کا خواہاں ہے جس کے کسی بھی اسلامی ملک کے بجائے امریکہ کے ساتھ گہرے تعلقات ہوں، اس لیے شام سے امریکی پابندیوں کو ہٹایا گیا، تاکہ شام انقرہ کے بجائے واشنگٹن کے زیراثر رہے اور قبضہ شدہ علاقوں کی واپسی کا مطالبہ یا جنوبی علاقوں پر رٹ قائم کیے بغیر دمشق حکومت اسرائیل کے ساتھ ابراہیمی معاہدہ کر کے اسے تسلیم کر لے۔
اسرائیل خود کو مشرق وسطی کی بالادست قوت ثابت کرنے کے لیے بےتحاشہ طاقت کا استعمال کر رہا ہے، کیونکہ خطے کے کچھ مسلمان ممالک نے امریکہ و اسرائیل سے سازباز کرکے دمشق میں اسرائیل مخالف بشار حکومت کو گرانے کے عظیم گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ بشار رجیم نے ایران، حزب اللہ اور حماس جیسے مزاحمتی گروپوں سے مل کر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے بند باندھا ہوا تھا، جو اب ٹوٹ چکا ہے۔
غزہ، غرب اردن، لبنان، شام، سمیت اسلامی ممالک پر اسرائیلی جارحیت رکوانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہوں، اسرائیل کو تسلیم کرنے سے باز رہیں، جن اسلامی ملکوں کے صیہونی ریاست سے سفارتی تعلقات ہیں، وہ فی الفور منقطع کریں،او آئی سی کے پلیٹ فارم کو متحرک کیا جائے اورنیٹو طرز پر ایک سیکورٹی اتحاد تشکیل دیا جائے، جو ایک اسلامی ملک پر حملے کو تمام اسلامی ممالک پر حملہ تصور کرنے کی پالیسی کا اعلان کرے۔ اسرائیلی جارحیت کی صورت تمام اسلامی ممالک مل کر اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کریں۔ صرف موثر سیاسی، سفارتی و عسکری اتحاد سے صیہونی ریاست کی جارحیت کو روکا جا سکتا ہے، ورنہ ایک کے بعد ایک اسلامی ملک اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتا رہے گا۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.