یوکرین کو جنگ کیلئے خطرناک امریکی ہتھیاروں کی فراہمی دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نجی طور پر یوکرین کے رہنما ولادیمیر زیلنسکی سے مشورہ کیا کہ اگر طویل فاصلے تک تباہی پھیلانے والے ہتھیار فراہم کیے جائیں تو کیاکیف ماسکو پر براہ راست حملہ کر سکتا ہے، آپ ہمت رکھتے ہیں کہ ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ پر تباہ کُن میزائل فائر کریں؟ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا بالکل اگر آپ ہمیں ہتھیار دیں تو ہم کر سکتے ہیں، امریکہ یوکرین کو کس طرح خطرناک ہتھار فراہم کرسکتا ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہےلیکن رائٹرز کی اطلاع کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ پیٹریاٹ میزائل پہلے ہی جرمنی کے راستے یوکرین کی طرف روآنہ کردیئے گئے ہیں، وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے حوالے سے فنانشل ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ صدرٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان ایم نوعیت کی یہ بات چیت امریکی صدر کی روسی صدر کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو کےبعد ہوئی، جس میں اُنھوں نےمغربی ملکوں کی شرائط کو ماننے سے صاف انکار کردیا تھا ۔
یوکرین جنگ کے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بدلتا رویہ اور ماسکو کے خلاف امریکہ کی جارحانہ پالیسی اس بات کی غمازی کررہی ہے کہ صدر ٹرمپ کایوکرین جنگ بند کرانے سے متعلق سابقہ بیانیہ سیاسی بازی گری کے علاوہ کچھ نہیں تھا، رائٹرز نے اپنی ایک اسٹوری میں لکھاہے کہ جب یوکرینی صدر سے روسی دارالحکومت پر بمباری کے بارے میں بات چیت کے دوران صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ زیلنسکی کو ماسکو کو نشانہ نہیں بنانا چاہیےگفتگو کا یہ انداز مخاطب پر یہ ظاہر کئے بغیر یہ اُس کی خواہش ہےاپنی منشاء سے آگاہ کرنا ہوتا ہے اور صدر ٹرمپ اس فن پر ملکہ رکھتے ہیں، ساتھ ہی صدرٹرمپ نے ماسکو کو جنگ بندی قبول کرنے یا پھر امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے کیلئے 50 دن کی ڈیڈ لائن کا اعلان کیا ہےجس کے اختتام پر معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں روس کو برے انجام سے ڈرایا ہے ، صورتحال واضح ہے کہ ٹرمپ جنگوں کے خاتمے کے اپنے وعدے سے پھر چکے ہیں اورجنگی مافیا کی ایماء پر ایسے حیلے تلاش کررہے ہیں جس سے وہ امن پسندوں پر یہ ظاہر کرسکیں کہ وہ تو جنگیں بند کرانے کی خواہش رکھتے ہیں مگر متحرب گروہ اِن کی بات نہیں مان رہے ہیں جبکہ درپردہ وہ ہورہا ہے جو جنگی مافیا کے مفاد میں ہے مثال کے طور پر ٹرمپ غاصب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی غیر معمولی طور پر پشت پناہی کررہے ہیں اور ظاہر ایسا کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ بندی چاہتے ہیں اور وہ بھوک سے تڑپتے ہوئے فلسطینی بچوں کیلئے نیک خیالات رکھتے ہیں۔
صدر ٹرمپ فلسطینیوں کے خون بہانے میں اسرائیل کے مددگار ہیں جیسے کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل کے مددگار تھے، صدر ٹرمپ کی انتظامیہ تو نیتن یاہو کی اتنی گرویدہ ہے کہ جب وہ کرپشن کے ایک مقدمہ میں عدالت جاتے ہیں تو اِن کے ھمراہ اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر کرپشن کے الزام کا سامنا کرنے والے نیتن یاہو سے اظہار یکجہتی کیلئےعدالت پہنچ جاتے ہیں، صیہونیوں کی حمایت میں یوں تو تمام ہی امریکی حکومتوں نے اخلاقی اقدار کا پاس نہیں رکھا مگر ٹرمپ انتظامیہ نے تو اخلاقی اور سفارتی اقدار کو پائمال کردیا ہے، امریکہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اسرائیلی یہودی نیتن یاہو کو پسند نہیں کرتے جس طرح پاکستانی عوام اسلام آباد پر مسلط سیاسی نقطہ نظر سے غیرقانونی نظام حکمرانی کو لائیک نہیں کرتے مگر ٹرمپ انتظامیہ دونوں ملکوں میں اخلاقی جواز نہ رکھنے والی حکومتوں اور شخصیات کو سپورٹ کررہی ہے۔
یوکرین جنگ بند کرانے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دلچسپی اس حد تک ہے کہ وہ خرچہ کئے بغیر وہ سب حاصل کرلیں جو یوکرین جنگی میدان میں حاصل نہیں کرسکتا،وائٹ ہاؤس کے حکام نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ روس کے تجارتی شراکت داروں پر 100 فیصد تک محصولات عائدکرنے جارہی ہے تاکہ روس کو مغربی ملکوں کی منشاء کےمطابق شرائط پر جنگ بندی معاہدہ کرنے پرمجبور کردیا جائے، اوول آفس میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے سے ملاقات میں ٹرمپ کی جانب سے 50 دنوں کی مہلت اس بات کا اشارہ ہے کہ یوکرین وہ خطرناک ہتھیار پہنچ جائیں گے جوزمین پر تباہی اور بربادی کے باعث ہیں، ٹرمپ نے یہی چال ایران کیساتھ چلی تھی 60 دنوں میں ایٹمی معاہدہ کرنے کی ازخود مدت قائم کی اور دوسری طرف اسرائیل کو ایران کے خلاف جارحیت کی تیاری کا اشارہ کردیا، امریکہ یوکرین کیساتھ جنگ میں شامل ہوگا اور نہ خطرناک ہتھیاروں کے پیسے معاف کرئے گا ، صدر ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ امریکہ نیٹو کے ذریعے یوکرین کو ہتھیار بھیجے گا، اُسکی ادائیگی اور تقسیم دونوں کی ذمہ داری نیٹو اتحاد کی ہوگی ، صدرٹرمپ نے اپنے پیشرو جو بائیڈن پر یوکرین جنگ میں امریکی شمولیت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے یوکرین جنگ کے لئے تقریباً 350 بلین ڈالر خرچ کئے۔
اگر روس نے کوئی جنگ بندی کی مغربی ملکوں کی شرائط پر پیش رفت کی تو ماسکو کو ثانوی امریکی ٹیرف کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے، واضح رہے ثانوی ٹیرف اُن ملکوں پر لگے گا جو روس سے کاروبار کریں گے، روس پر پابندیوں پر مشتمل لنڈسے گراہم بل کے منظور ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں، جو روسی تیل اور دیگر خام مال درآمد کرنے والے ممالک پر 500 فیصد تک کے ثانوی محصولات عائد کرنے کی اجازت دے گا، یہ دنیا کی معیشت کیلئے خطرناک فیصلہ ثابت ہوگااور دنیا کی بڑی معیشتیں اس بل کی وجہ سے منفی سمت میں گامزن ہوجائیں گی جبکہ اس کا نفاذ خود امریکہ کی زوال پذیر معیشت کیلئے بربادی کی نوید ہوگا، اس فیصلے کا ایک سیاسی پہلو بھی سامنے آسکتا ہے،جو دنیا کی موجودہ الائنمنٹ بھی تبدیل کردیگا، ہندوستان جسکا انحصار روسی تجارت پر غیرمعمولی ہے وہ امریکی عزائم کے خاطر واشنگٹن کے ساتھ کیوں کھڑا ہوگا۔
روس نے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی پر امریکہ اور یورپی یونین کے بعض ملکوں کی بارہا مذمت کی ہےاور متنبہ کیا ہے کہ اس سے صرف تنازع کو طول دینے کا کام ہوتا ہے اور اس کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑتا،یوکرین کے صدر کو موقع ملے گا کہ وہ روس کی جنگ بندی میمورنڈم میں بیان کردہ شرائط کو نظرانداز کرئےجس سے جنگ کی آگ پھیلے گی یوں تو دنیا جنگ عظیم سوئم میں داخل ہوچکی ہے کیونکہ تنازعات کو جنگی میدان میں لانے کی پہل اسرائیل کرچکا ہے جب اُس نے سفارتکاری کے دوران امریکی شہ پر ایران پر حملہ کیا تھا۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.