فرانس کے بعد برطانیہ بھی تل ابیب اور واشنگٹن کو حیران کرنے والا ہے؟

UK also going to surprise Tel Aviv and Washington?
فرانس نے آخر کار غزہ کی مایوس کن صورتحال پر بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فلسطین کو ریاست کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی عالمی طاقتوں کے رویہ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی نسل کشی اور ایک مذموم منصوبے کے تحت فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف عالمی قوانین کو نافذ کرانے میں ناکام رہی ہے، فرانس کو امید ہے کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب وہ باضابطہ طور پر فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کرئے گا تو دیگر عالمی طاقتیں بھی اس کی پیروی کریں گی، یقیناً زیادہ تر ممالک نے بہت پہلے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا، یاد رہے کہ مئی میں اسپین، آئرلینڈ اور ناروے بھی فلسطین کو ریاست کا درجہ دے چکے ہیں لیکن فرانس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بڑے صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کا پہلا رکن ہے جو ایسا کرنے جا رہا ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فرانس کے اس اعلان کی مذمت کی ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا روبیو نے اسے ایک لاپرواہ فیصلہ قرار دیا ہے، میکرون نے جمعرات کو کہا کہ فرانس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلے گا، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ فرانس کے اس فیصلے سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے میں مدد ملے گی، فرانس کے اس فیصلے کے بعد فلسطین کے حوالے سے مغربی ملکوں کی درینہ پالیسی پر یورپ اور امریکا کے درمیان دراڑ بڑھ جائے گی کیونکہ امریکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے منصوبے کو ترک کرچکا اور امریکہ کی موجودہ انتظامیہ یہودی ریاست کے گریٹر اسرائیل کے مذموم منصوبے کی حمایت کررہا ہے، امریکہ انتظامیہ کی اس بدلتی پالیسی کا ایک اظہار ہم دمشق میں الشرع جولانی کو ترکیہ کی مدد سے برسراقتدار لانے کی صورت میں دیکھ چکے ہیں، شام میں بشار الاسد کے فرار اور احمد الشرع کی قیادت میں مسلح گروہوں کے دمشق پر قبضے کے بعد اسرائیل نے اس ملک کا دفاعی ڈھانچہ جس طرح تباہ کیا تھا اُس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تل ابیب گیریٹر اسرائیل کے منصوبے کو امریکی حمایت اور تائید کیساتھ آگے بڑھا رہا ہےجبکہ شام کی الشرع انتظامیہ نے اسرائیل کے سامنے جس طرح سرینڈر کیا اُس نے اسرائیل کو مزید منہ زور بنادیا ہے، شام میں ڈیفنس ہیڈکوارٹر کو تباہ کرنے کا اسرائیلی منصوبہ معمولی نوعیت کا نہیں تھا ، جو کام تل ابیب بشار الاسد کی موجودگی میں کبھی نہیں کرسکتا تھا اُسے احمد الشرع نے ممکن بنادیا اور اس خیانت کاری میں ترکیہ کا بھی مذموم حصّہ ہے۔
فرانس کی جانب سے فلسطین کو ریاست کا درجہ دیئے جانے کے فیصلے نے تل ابیب میں ہلچل مچا دی ہے، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو جو کرپشن کے ایک مقدمے کی سماعت سے بچنے کیلئے بیمار ہونے کا ناٹک کررہے تھے فرانس کے مذکورہ فیصلے پر تنقید کیلئے باہر نکل آئے اُنھوں نے کہا فلسطینی ریاست ایرانی پراکسی کی خطرناک شکل ہوگی جو اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کیلئے ایک لانچ پیڈ کے طور پر استعمال ہوگی تاہم فرانس کے متذکرہ فیصلے کی بڑے پیمانے پر تعریف بھی جارہی ہے، خلیج فارس کی عرب ریاستوں کےسرخیل سعودی عرب نے فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کی حمایت کی ہے، سعودی وزارت خارجہ نے فرانس کے اس اقدام کو تاریخی قرار دیا ہے، سعودی عرب نے جمعہ کے روز فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے فیصلےکو تاریخی قرار دیا اوردیگر ممالک سے بھی ایسے ہی اقدامات اٹھانے کی اپیل کی ہے، سعودی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں فرانس کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کو حقِ خودارادیت حاصل ہے اور 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر ان کی آزاد ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو، خیال رہے صدر ایمانوئل میکرون نے جمعرات کو اعلان کیا کہ فرانس ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا، اردن کی وزارتِ خارجہ نے بھی میکرون کے فیصلے کی تعریف کی، وزارت خارجہ کے ترجمان سفیان القضاۃ نے ایک بیان میں کہا فرانس کا فیصلہ دو ریاستی حل کے حصول اور قبضے کے خاتمے کی جانب صحیح سمت میں ایک قدم ہے، واضح رہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی سخت مخالفت کے باوجود فرانس سمیت فلسطینی ریاست کو ابتک 142 ممالک نے تسلیم کر لیا ہے۔
یورپی ملکوں میں فرانس کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطلب بڑی یورپی طاقت نے امریکی مخالفت کو نظر انداز کردیا ہے فرانس کا اعلان اہم اور دور رس ہے جو برطانیہ اور جرمنی کو بھی اس صف میں کھڑا کردے گا، برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے اپنی حکومت سے فلسطین کو آزاد ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے، خارجہ امور کی کمیٹی نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کوتسلیم کرنے کیلئے مناسب وقت کا انتظار کرنے کے بجائے مقبوضہ عرب علاقوں پر یہودی آبادکاروں کے جاری قبضے اور غزہ میں اسرائیلی حکومت کی نسل کشی کو پیش نظر برطانوی حکومت فوری طور پر فلسطین کو آزاد ریاست کا درجہ دے، اہمیت تو اس بات کی بھی ہے کہ جب فرانسیسی صدر میکرون نے اس ماہ کے شروع میں برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز(پارلیمنٹ) سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ فلسطین کی تاریخ کو تسلیم کرنے کے سیاسی فیصلے پر مل کر کام کرنے سے ہی مشرق وسطیٰ میں امن کا راستہ نکالا جاسکتا ہے، اُنھوں نے اُمید کا اظہار کیا ہے کہ برطانیہ بہت جلد فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے فرانسیسی فیصلے کا پیچھا کرئے گا، یورپی یونین کے 9 ممالک پہلے ہی فلسطین کو ریاست کا درجہ دے چکے ہیں، جن میں اسپین، ناروے اور آئرلینڈ شامل ہیں، اگر برطانیہ اس فہرست میں شامل ہوتا ہے تو امریکہ کی تنہائی مزید بڑھ جائے گی، برطانیہ کی خارجہ اُمور کمیٹی کے ارکان نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ(وزیراعظم ہاؤس) فلسطین کو ریاست کا درجہ دینے کی اُن کی سفارش کو سنے گاتا کہ اسرائیل کو دو ریاستی حل قبول کرنے پر مجبور کیا جاسکے برطانوی وزیراعظم اسٹارمر نے کہا ہے کہ غزہ کی صورتحال خرابی کی نئی گہرائیوں تک پہنچ چکی ہے، اُنھوں نے کہا کہ غزہ میں پائی جانے والی مصیبت اور بھوک ناقابل بیان اور ناقابلِ دفاع ہے، فرانس کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان معمولی نہیں ہے اس سے تل ابیب اور واشنگٹن کی مشکلات بڑھنے جارہی ہیں اور ایسےاقدامات کے ذریعےظلم کی تاریک رات کا وقت ختم ہوسکتا ہے۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.