جمعرات، 25-ستمبر،2025
بدھ 1447/04/02هـ (24-09-2025م)

Advertisement

Advertisement

Advertisement

Advertisement

الاسکا سمٹ کے بعد ٹرمپ کا یوٹرین، مستقل امن معاہدے پر زور

18 اگست, 2025 14:15

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الاسکا میں تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو خبردار کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کو نظرانداز کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کے بعد براہِ راست ایک مستقل امن معاہدے کی طرف بڑھیں تاہم زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے جنگ بندی سے انکار جنگ کے خاتمے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا رہا ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ روس بار بار جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کر رہا ہے اور ابھی تک یہ طے نہیں کیا کہ وہ کب جنگ روکے گا، یہی چیز صورتحال کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔
اتوار 17 اگست 2025ء کو یوکرین کے صدرزیلنسکی واشنگٹن جا رہے ہیں ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ زیلنسکی پر زور دیں گے کہ وہ روس کے امن معاہدے پر متفق ہوں، اپنے موقف میں بڑی تبدیلی لاتے ہوئے ٹرمپ نے جمعہ کے اجلاس کے بعد ٹروتھ سوشل پر کہا کہ یہی روس اور یوکرین کے درمیان خوفناک جنگ ختم کرنے کا بہترین طریقہ ہےکیونکہ اکثر جنگ بندیاں زیادہ دیرپا نہیں ہوتیں، صدر ٹرمپ نے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ صرف ایک جامع امن معاہدہ ہی یوکرین کی جغرافیائی حیثیت کو دوام دے سکتا ہے سوچ کی اس تبدیلی کی وجہ صدر پوین کی غیر مری صلاحتیں ہیں یا کچھ اور اس بات کا تعین تاریخ کرئے گی، ٹرمپ کے اس موقف کو یورپ کے سیاستدان یوٹرن کہہ رہے ہیں کیونکہ اس سے قبل ٹرمپ نے اپنے موقف کی سختی کا اظہار کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اگر روسی صدر پیوٹن نے جنگ ختم کرنے پر اتفاق نہ کیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے، گزشتہ ماہ انہوں نے ماسکو کو جنگ بندی کیلئے مہلت دی تھی اور خبردار کیا تھا کہ بصورت دیگر اسے سخت نئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں اضافی محصولات کا نفاذ بھی شامل ہوگا، ایک خیال یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ کے مؤقف میں اچانک تبدیلی روسی صدر پیوٹن کی جنگی حکمتِ عملی میں تبدیلی ہے، جس کے تحت روس نے دفاعی حکمتِ عملی کو ترک کرتے ہوئے جارحانہ حملے شروع کیے اورامریکہ کی جانب سے ایٹمی سمیرین بھیجنے کے جواب میں روس کے وہ اقدامات تھے جو یورپ امریکہ کیلئے تباہ کُن ثابت ہوتے۔
امریکی صدر نہیں چاہتے کہ وہ یوکرین کی پشت پر کھڑے ہو کر روس کو مشتعل کریں کیونکہ یہ ان کے نزدیک خسارے کا سودا ہے، ٹرمپ کے بقول، یوکرین کے عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مغربی یورپ کے تین بڑے ملک فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے امریکی اسلحہ ساز لابی (جو اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کا اہم حصہ ہے) کے ساتھ مل کر زیلنسکی کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور یوکرین کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا جس کا نتیجہ اس کی تباہی کی صورت میں نکلا، الاسکا ایئر پورٹ پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا جس طرح استقبال کیا گیا اس سے ظاہر تھاکہ یورپی ٹرائیکا اپنے عزائم میں ناکام ہو چکی ہے،اجلاس کے بعد ٹرمپ سے فون پر بات کرتے ہوئے زیلنسکی نے حقیقی اور دیرپا امن معاہدہ کرنے پر زور دیا اور ساتھ ہییہ بھی بتادیا کہ امریکہ یوکرین روس جنگ کی آگ بجھانے کا عزم کرچکاہےاور جنگ ختم کرنے کے علاوہ یوکرین کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے، جس کے بعد صدر زیلسنکی نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ اُن کاملک ماسکو کے ساتھ ایک پائیدار اور قابلِ اعتماد امن کے لئے تیار ہے لیکن یوکرین کی سلامتی کی مستندضمانت اور مہاجرین کی واپسی بنیادی شرائط ہونگی ۔
ڈونلڈ ٹرمپ یوکرینی صدر زیلنسکی اور روسی صدر پیوٹن کے ساتھ ایک سہ فریقی اجلاس کے خواہاں ہیں، جو اگلے ہفتے ممکن ہے،اطلاعات کے مطابق یہ ملاقات اس صورت میں ہوسکتی ہے اگر پیر کو وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کے مذاکرات کامیاب رہتے ہیں جمعہ کے روز ٹرمپ نے الاسکا کے شہر اینکریج میں پیوٹن سے ملاقات کے بعد کہا گفتگو گرمجوش رہی جس کو اُنھوں نے دس میں سے دس نمبر دیئے جبکہ روسی صدر نے اسے واضح اور بامعنی قرار دیا، خیال رہے کہ جو 2022 میں یوکرین تنازع بڑھنے کے بعد کسی بھی امریکی صدر کی پہلی بالمشافہ ملاقات تھی، الاسکا سمٹ کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو میں اطلاعات کے مطابق یورپی رہنماؤں نے بھی شرکت کی، ٹرمپ نے انہیں بتایا کہ وہ آئندہ ہفتے جمعہ تک پیوٹن اور زیلنسکی کے ساتھ سہ فریقی اجلاس منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ بعدازاں میڈیا نے اطلاع دی کہ اس رابطے میں یہ طے پایا کہ اس اجلاس میں کم از کم ایک یورپی رہنما بحیثیت مبصر شریک ہوگاتاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کون ہوگا۔
صدر پیوٹن سے ملاقات کے بعد ٹرمپ کے بیانات ان کے مؤقف میں ڈرامائی تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں، جس سے یورپی ٹرائیکا (برطانیہ، فرانس اور جرمنی) تشویش میں مبتلا ہے، یوکرین کے صدر اور یورپی ٹرائیکا کا سب سے بڑا مطالبہ پوتن سےفوری جنگ بندی لینا تھا ، جس میں کامیابی نہ مل سکی اور یورپی ٹرائیکا کا یہ اندیشہ درست تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ دارالحکومت کیف کبھی بھی روسی اثر سے بچ پائے گا اور زیلنسکی اس ملک کی صدارت سے انجوائے نہیں کرسکیں گے، دوسری طرف اطلاعات ہیں کہ پیوٹن نے ٹرمپ کے سامنے ایک امن معاہدہ تجویز کیا ہے جس کے مطابق یوکرین کو ڈونباس کے علاقے دونیتسک سے نکلنا ہوگا اور اس کے بدلے روس زاپوریزیا اور خیرسون میں محاذپر جنگ ختم کردے گا، روس نے 2014 میں کریمیا کو ضم کیا تھا جبکہ روسی اکثریتی ڈونباس تاریخی طور پر روس کا اٹوٹ انگ ہے، فی الحال لوہانسک کے بیشتر حصے اور دونیتسک کا تقریباً 70 فیصد علاقہ روس کے قبضے میں ہے، ٹرمپ اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ کسی امن معاہدےکی صورت میں اِن علاقوں کا کچھ تبادلہ شامل ہوسکتا ہے، انہوں نے مبینہ طور پر یہ تجویز زیلنسکی کو اجلاس کے بعد ہونے والی کال میں بتادی ہے،ٹرمپ نے یورپی رہنماؤں سے فون پر کہا کہ پیوٹن کچھ رعایتیں دیں گے ،وہ رعایتیں کیا ہوں گی، فی الحال میڈیا کو اس سے بت خبر رکھا گیا ہے تاہم یہ طے ہوچکا ہے کہ یورپی ٹرائیکا کی نیٹو پھیلاؤ کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔
ماسکو نے اصرار کیا ہے کہ پائیدار تصفیے کے لیے کیف کو نیٹو میں شمولیت کے عزائم ترک کرنا ہوں گے، یوکرین کو غیر فوجی بنانا ہوگا اور موجودہ علاقائی حقائق کو تسلیم کرنا ہوگا، اس کے مطابق کیف کو کریمیا، دونیتسک، لوہانسک، خیرسون اور زاپوریزیا پر روس کی حاکمیت تسلیم کرنی ہوگی، یہ وہ علاقے ہیں جہاں 2014 اور 2022 کے ریفرنڈم میں عوام نے روس میں شمولیت کے لئے ووٹ ڈالے تھے۔
پیوٹن نے زیلنسکی کے ساتھ براہِ راست بات چیت کے امکان کو مسترد نہیں کیا لیکن اس بات پر زور دیا ہے کہ اس سے پہلے وسیع تر تصفیہ پر پیش رفت ضروری ہے، ماسکو نے زیلنسکی کے پابند معاہدوں پر دستخط کرنے کے اختیار پر بھی سوال اٹھایا ہے، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ان کی صدارتی مدت گزشتہ سال ختم ہوچکی ہے اور مارشل لا کے تحت کوئی نئے انتخابات نہیں ہوئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ روسی اور امریکی صدور کے درمیان الاسکا سمٹ کامیاب رہی لیکن اس حقیقت کو نیٹو، یورپی ٹرائیکا، یورپی یونین کے سیاستدان اور زیلنسکی حکومت تسلیم کرنے کے بجائے اِن کوششوں سبوتاژ کرسکتے ہیں روس کی جانب سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ وہ لڑائی جاری رہنے کے باوجود مذاکرات کرسکتا ہے اور اس پر نہ کوئی قانونی، نہ اخلاقی اور نہ ہی عملی دباؤ ہے۔

Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News


Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.

اوپر تک سکرول کریں۔