جمعرات، 25-ستمبر،2025
بدھ 1447/04/02هـ (24-09-2025م)

Advertisement

Advertisement

Advertisement

Advertisement

قطر پر اسرائیلی حملہ عرب ـ اسرائیل تعلقات پر سوالیہ نشان

15 ستمبر, 2025 08:30

قطر کے حکمرانوں کو 9 ستمبر کو دوحہ پر غاصب اسرائیل کی فوجی کارروائی کے بعد زیادہ حقیقت پسندانہ دفاعی اور خارجہ پالیسی نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

اس حملے سے یہ حقیقت بے نقاب ہوچکی ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے دوران امریکی کردار نہایت مذموم رہا۔ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ قطر کے خلاف اسرائیلی حملے سے بے خبر تھی، اور مغربی ذرائع ابلاغ یہ باور کرانے کی سعی کر رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ اسرائیل کی ایک اور مسلم ملک کے خلاف جارحیت پر تل ابیب سے ناراض ہیں، تاہم دنیا اور بالخصوص عرب حکمران و عوام اس بچگانہ بیانیے کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔

اس خطے میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ العُدید قطر میں موجود ہے، جس نے ایران۔اسرائیل جنگ کے دوران تل ابیب کی مدد کیلئے بھرپور کردار ادا کیا تھا، مگر دوحہ پر حملے کے دوران امریکی ہارڈویئر کیوں خاموش رہا؟ ایران کی جانب سے اٹھائے گئے اس معقول سوال کا جواب قطر کی سالمیت سے جڑا ہے، امریکہ جو قطر سے اس کی حفاظت کے نام پر کئی ہزار ارب ڈالر وصول کرچکا ہے کیوں قطر پر خطرات کے وقت خاموش رہا؟ دوحہ پر اسرائیلی فوجی جارحیت نے یہ بات واضح کردی کہ امریکہ اُس وقت اس ملک کی دفاعی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہوگا جب مد مقابل اسرائیل ہوکیونکہ  امریکہ کی کوئی بھی انتظامیہ یہودی ریاست کے خلاف ایک گولی چلانے کی صلاحیت یا اختیار نہیں رکھتی، یہ مسلم حکمران ہیں جو قرآنی حکم کے برخلاف یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست سمجھتے ہیں۔

دوحہ پر اسرائیلی فوجی مہم جوئی اس لحاظ سے بھی معنی خیز ہے کہ تل ابیب کی عسکری کارروائیوں کا دائرہ فلسطین اور لبنان سے بڑھ کرشام، یمن، ایران اور تیونس تک پھیل چکا ہےجبکہ اسرائیل اس سےقبل سوڈان، مصر، اردن اور لیبیا پر خطرناک حملے کرچکا ہے لیکن قطر، جو روایتی طور پر امریکہ اور اسرائیل کی ایماء پر علاقائی تنازعات میں ثالث بنتا رہا ہے، اب خود اسرائیلی جارحیت کا براہ راست شکار بن گیا ہے، دوحہ حکومت اسرائیلی حملے کا جواب دینے کیلئے دباؤ محسوس کررہی ہے، اس خاندانی حکومت پر عرب عوام اور اندرونی سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہےمگر امریکہ چاہتا ہے کہ دوحہ اسرائیل کے خلاف کوئی تادیبی اقدام نہ کرے،یہی موقف یورپ کے تین بڑے ممالک فرانس، برطانیہ اور جرمنی کا بھی ہے، ان تینوں شیطانی  طاقتوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد ازخود اسرائیل کی جغرافیائی سالمیت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہےجبکہ مالی فوائد عربوں سے حاصل کرتے ہیں۔

قطری عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ جب وقت پڑنے پر قطر کا دفاع ممکن نہیں تو پھر ان کے ملک میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ العُدید کیوں موجود ہے؟ امریکی اڈے کی موجودگی کے جواز پر قطری عوام میں بتدریج بے چینی بڑھ رہی ہے، جو ایک فطری سیاسی ردعمل ہے،دنیا میں یہ سوال شد و مد کے ساتھ زیرِ بحث ہے کہ جب قطری سالمیت کو چیلنج کیا گیا تو امریکی اڈے کے تمام ہتھیار خاموش کیوں رہے، جبکہ اس سے پہلے ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائی میں یہی ہتھیار متحرک تھے۔

غاصب اسرائیل کی منگل کے روز دوحہ میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنانےکی  بظاہر کوشش ناکام رہی ،حماس نے تصدیق کی ہے کہ اس کے پانچ ارکان جن میں سینئر رہنما خلیل الحیہ کا بیٹا بھی شامل ہے، اس حملے میں شہید ہوئے مگر فیصلہ ساز قیادت محفوظ ہےتاہم امریکہ میں تعینات اسرائیلی سفیر یحیئیل لائیٹر نے دوبارہ حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہےجوبین الاقوامی قوانین کا کھلم کھلا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے، اگر واشنگٹن واقعی قطر پر اسرائیلی حملے پر برہم ہے تو اسے اپنی سچائی ثابت کرنے کیلئے کم از کم واشنگٹن اپنے ملک میں تعینات اسرائیلی سفیر کو غیر سفارتی زبان استعمال کرنےپر ملک بدر کرئے، یہی توقع انصاف پسند اقوام کو یورپی یونین سے بھی ہے۔

اسرائیل کا استکباری رویہ خطے اور دنیا کے امن کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے، تل ابیب مشرقِ وسطیٰ میں بدمست ہاتھی بننے کا خواہاں ہے اور ہر وہ حربہ استعمال کر رہا ہے جو انسانی وقار کو مجروح کرتا ہے، قطر پر اسرائیلی حملے کے خلاف اقوامِ متحدہ کے تمام ارکان کو متفقہ عملی اقدامات تجویز کرنے چاہئیں اسی طرح عرب ممالک کو فوراً معاہدۂ ابراہیمی سے نکل آنا چاہیے، متحدہ عرب امارات اور ترکی اسرائیل کو تیل کی سپلائی بند کردیں، دوحہ حملے میں قطر کا ایک شہری  بھی شہید ہوا ہے اس بنیاد پر قطر کو اسرائیل کے خلاف جوابی فوجی کارروائی کا حق حاصل ہے چاہے اُس کی نوعیت رسمی ہی کیوں نہ ہو۔

زیادہ تر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قطر، جو مصالحت کار ملک سمجھا جاتا ہے، حماس کی قیادت کو امریکی و اسرائیلی جارحیت کے خلاف ڈھال فراہم نہیں کرسکااور اس کی ثالثی کی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے، اب اطلاعات ہیں کہ قطر نے اسرائیلی انٹیلی جنس کے مقامی ایجنٹوں کو گرفتار کرکے سزائیں دینا شروع کردی ہیں، اگرچہ دوحہ نے اس کی باضابطہ تصدیق نہیں کی، یاد رہے کہ ایران نے بھی اسرائیلی ایجنٹوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کر کے ان کا نیٹ ورک توڑ ڈالا تھا، قطر میں اسرائیلی ایجنٹوں کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ باقی مسلم ممالک میں بھی اسرائیلی خفیہ اداروں نے کمین گاہیں بنا رکھی ہیں لہٰذا عرب اور مسلم ممالک کو اپنے اپنے ملک میں اسرائیلی ایجنٹوں کو تلاش کرنا ہوگا اور ان یہودی شہریوں پر خاص نظر رکھنی ہوگی جو صیہونی عزائم کیلئے استعمال ہوسکتے ہیں، حالیہ دنوں میں اسرائیل نےصرف قطر پر حملہ  نہیں کیا بلکہ شام میں متعدد ترک مقامات کو بھی نشانہ بنایا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کھل کر ترکی اور قطر کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ حماس کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے کسی بھی ملک کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News


Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.

اوپر تک سکرول کریں۔