روس اور چین کا عالمی کردار: امریکہ کیلئے عربوں کا مالی بہاؤ روکنا ہوگا

روس اور چین کا عالمی کردار: امریکہ کیلئے عربوں کا مالی بہاؤ روکنا ہوگا
چین کے شہر تیانجن میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس مغرب کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
مغرب عمومی طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے بجائے برکس کو ایک بین الاقوامی فورم کے طور پر زیادہ اہمیت دیتا آیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ برکس کا دائرہ بین الاقوامی سطح تک پھیلا ہوا ہے، جبکہ ایس سی او یوریشیائی خطے تک محدود ہے۔ اس کے اصل ارکان چین، روس اور وسطی ایشیائی ریاستیں ہیں، بھارت اور پاکستان بعد میں شامل ہوئے جبکہ حال ہی میں بیلاروس بھی رکن بن چکا ہے۔
ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل برکس ممالک نے نئے ترقیاتی بینک اور ہنگامی ریزرو فنڈ جیسے مالیاتی اداروں کا قیام عمل میں لایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تجارت میں قومی کرنسیوں کے استعمال کی تجویز، امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کا ہدف اور اپنی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام جیسے منصوبے بھی سامنے لائے گئے ہیں، جنہوں نے مغربی بالادستی کو کھلا چیلنج دیا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے بڑے ممالک کی نگاہیں برکس پر جمی ہوئی ہیں، امریکی سی آئی اے کے ساتھ برطانوی ایم آئی فائیو اور ایم آئی سکس برکس سے یورپی ملکوں کو دور رکھنے کیلئے اپنے مذموم منصوبوں پر پہلے ہی سے مصروف عمل ہیں، امریکہ اور اس کےاتحادی یورپی ممالک برکس کو کثیر القطبی دنیا کے قیام کیلئے ایک محرک سمجھتے ہیں، جویقیناً مغرب کی موجودہ بالادستی کے خلاف سنگین خطرہ ہے۔
اگرچہ پہلے ایس سی او کو اس زاویے سے نہیں دیکھا جاتا تھا لیکن تیانجن سربراہی اجلاس کے بعد یہ تنظیم بھی کثیر القطبی دنیا کی تشکیل کے حق میں ایک مؤثر عنصر کے طور پر سامنے آئی ہے۔
چین نے ایس سی او اجلاس کو اپنی فوجی طاقت کے اظہار کیلئے استعمال کیا، جس طرح 2008ء میں بیجنگ اولمپکس کو اپنی اقتصادی قوت دکھانے کیلئے بروئے کار لایا تھا، اس بار چین نے جدید ہتھیاروں کی وسیع نمائش اور شاندار فوجی پریڈ کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ مغربی پیسیفک میں طاقت کا توازن بدل چکا ہے،امریکی مقتدرہ بھی یہ تسلیم کر چکی ہے کہ روس اور چین نے یک قطبی نظام میں بڑا شگاف ڈال دیا ہے اور اب دنیا صرف امریکہ کے مطابق نہیں چل سکتی، اس اہم واقعے پرٹرمپ کو بھی تبصرہ کرنا پڑاکہ چین کا عسکری مظاہرہ متاثرکن تھا، ٹرمپ کا محتاط تبصرہ اپنی جگہ مگر امریکی مقتدرہ دنیا پراپنی بالادستی آسانی سے نہیں چھوڑے گی اور اس کی قیمت دنیا کو چکانی ہوگی۔
چین اور روس ابھی تک ایشیائی اور افریقی اُمور پر گرفت مضبوط نہیں کرسکیں ہیں جبکہ مشرقِ وسطیٰ کے دولتمند عرب ممالک امریکہ کو مالی طاقت فراہم کررہے ہیں جس کے بدلے میں مشرق وسطیٰ میں بادشاہتیں قائم ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ روس اورچین اس سیاسی منظر نامے پر کیا ردِعمل دیتے ہیں،شام میں روس کا فوجی اڈہ موجود ہے اور سابق صدر بشارالاسد کے بعد بھی روسی افواج وہاں تعینات ہیں البتہ ایران کے انخلا نے روس اور چین دونوں کوصدمے سے دوچار کیاہے، ایران کی شام میں موجودگی روس کو عسکری لحاظ سے پشت پناہی فراہم کرتی تھی لیکن اب جبکہ ایرانی افواج شام سے نکل چکی ہیں، شام میں روس کا فوجی کردار بھی محدود ہوگیا ہے،دمشق کی موجودہ انتظامیہ ترکی اور امریکہ کے زیرِ اثر ہےاور وہاں کے نئے آمر احمد الشارع اسرائیل کے سامنے جھک چکے ہیں۔
دولت سے مالا مال مشرق وسطیٰ کے ممالک بحرین، قطر، عراق، کویت، اردن، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں اسٹریٹجک نوعیت کے امریکی فوجی اڈے ہیں جبکہ مصر، شام اور مراکش کی فوجی طاقت امریکی مقتدرہ کے تابع ہے،ایس سی او اور برکس کو بعض مبصرین منی اقوامِ متحدہ قرار دیتے ہیں لیکن ان کے اصل ستون روس اور چین ہیں جو عالمی سیاست میں گہرائی تک پیوست ہیں۔
روس اور چین کی عسکری قوت کے مظاہروں کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک پوری طرح چوکنا ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ اور یورپی یونین مجبوراً اپنے باہمی اختلافات کو سلجھا کر فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے تاکہ روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ امریکہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک سے تقریباً تین ٹریلین ڈالر بطور بھتہ وصول کر رہا ہے، اس کے علاوہ عراق اور شام سے خام تیل بھی بڑی مقدار میں چرا رہا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں روس اور چین کے لیے ضروری ہے کہ برکس کو مضبوط کریں اور سب سے پہلے امریکہ کی اس لائف لائن کو کاٹیں، کیونکہ جب تک مشرق وسطیٰ سے واشنگٹن کو مالی بہاؤ جاری رہے گا، کثیر القطبی عالمی نظام کے قیام میں مشکلات برقرار رہیں گی۔
قطر، شام، لبنان اور تیونس پر اسرائیلی حملوں نے، جو امریکی آشیرباد سے ہوئے، جس کے باعث عرب حکمرانوں کے اعتماد کو سخت ٹہس پہنچی ہےیہی موقع ہے کہ روس اور چین برکس کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ سے کثیر القطبی عالمی نظام کی تشکیل کا آغاز کریں۔ اس کے لیے انہیں عرب حکمرانوں کو ان کی حاکمیتِ اعلیٰ اور جغرافیائی سالمیت کی ضمانت دینی ہوگی، تاہم روس اور چین نے ایران پر اسرائیلی اور امریکی جارحیت کے دوران وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی عربوں کو توقع تھی۔ خاص طور پر قطر پر حملے کے بعد روس اور چین کو آگے بڑھنا چاہیے تھا، عرب اور مسلم ممالک نے قطر کی دلجوئی کی ہے روس اور چین کو کم از کم وزیرِ خارجہ کی سطح پر وفود بھیجنے چاہیے تھے، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دونوں ہی اسرائیل کے خلاف کھڑا ہونا نہیں چاہتے جبکہ مسلمانوں اور عربوں کیلئے اسرائیلی جارحیت اور دباؤ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.
خاص خبریں
Advertisement