جمعرات، 25-ستمبر،2025
بدھ 1447/04/02هـ (24-09-2025م)

Advertisement

Advertisement

Advertisement

Advertisement

ایران پر اقوام متحدہ کی اسنیپ بیک پابندیاں، خطے میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ

20 ستمبر, 2025 09:05

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعہ کے روز ایک ایسے اقدام پر ووٹنگ کی ہے، جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کے باعث اس ملک پر وسیع اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

یہ اقدام اسنیپ بیک میکانزم کو متحرک کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ 2015 کے جوہری معاہدے سے پہلے کی عائد اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں 27 ستمبر کو دوبارہ نافذ العمل ہوجائیں گی۔

ایران نے یورپ کے تین بڑے ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ جنھیں عرف عام میں ای 3 بھی کہا جاتا ہے کو باور کرادیا تھا کہ اگر ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ کی گئیں تو تہران این پی ٹی معاہدے سے باہر نکل آئے گا، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایران پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔

ایران میں واضح اکثریت اپنی حکومت سے فوری ایٹمی دھماکہ کرنے کا مطالبہ کررہی ہے، 27 ستمبر 2025ء کے بعد ایران پر روایتی ہتھیاروں کی خریداری سمیت بیلسٹک میزائل کو ترقی دینے پر پابندیاں کیلئے مطلوبہ آلات کی درآمد پر پابندی ہوگی اس کے علاوہ اثاثوں کی منجمدی، سفری پابندیاں اور جوہری ٹیکنالوجی کو منتقل کرنے پر پابندی لگادی جائے گی، خیال رہے کہ ایران نے درج بالا پابندیوں کے دوران بھی اپنی دفاعی اور سائنسی ترقی میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔

اسی عرصے کے دوران ایران نے اپنے ڈرون اور میزائل پروگرام کو ترقی دی تھی جبکہ 2015ء کے جوہری معاہدہ کے بعد 16 جنوری 2016ء کو اسنیپ بیک میکنزم کے تحت لگنے والی اقوامِ متحدہ کی پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں۔

2018ء میں امریکہ کی ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے یکطرفہ طور پر ایٹمی معاہدے سے نکلنے کا اعلان کردیا اور ایران پر واشنگٹن نے دوبارہ سخت پابندیاں لگا دیں لیکن اقوامِ متحدہ کی سطح پر اسنیپ بیک میکنزم کے تحت پرانی پابندیاں باضابطہ طور پر دوبارہ نافذ نہیں ہو سکیں کیونکہ باقی دستخط کنندگان جن میں روس، چین، یورپی ممالک شامل تھے نے امریکہ کی کوشش کو تسلیم نہیں کیا، جس کے باعث پابندیوں کو مستقل طور پر ختم کرنے کی قرارداد ناکام رہی، جس میں چار نے حمایت کی نو نے مخالفت کی اور دو نے ووٹ دینے سے گریز کیا۔

ایران پر اسنیپ بیک میکنزم کے تحت پابندیاں عائد کرنے کی قرارداد جنوبی کوریا کی جانب سے پیش کی گئی تھی، جو اس ماہ سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال رہا ہے، روس، چین، الجزائر اور پاکستان نے ایران کی حمایت میں ووٹ دیا، ایران کے خلاف پابندیوں کی واپسی تہران کو مزید تنہائی میں دھکیلنے کی استعماری خواہش ہے حالانکہ ایران نے پہلے ہی ایسے اقدامات کرلئے ہیں جس کی بدولت ایران اقوام متحدہ کی دوبارہ نافذ العمل پابندیاں کا خاطر خواہ مقابلہ کرسکے گا۔

اسنیب بیک پابندیاں لگانے کیلئے برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اُس وقت اقدامات شروع کئے جب تہران نے اِن تینوں ملکوں کے مطالبات کو ناانصافی قرار دیکر مسترد کردیا تھا ایران اور ای 3 ملکوں کے درمیان مذاکرات کے دوران یورپ کے اِن تین ملکوں نے ایران کی ایٹمی و دفاعی تنصیبات اور شہری علاقوں پر اسرائیلی اور امریکی حملوں کی مذمت کرنے اور جارح ملکوں کو تاوان ادا کرنے کیلئے میکنزم تیار کرنے کے بجائے ایران پر دباؤ ڈالا کہ وہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی(آئی اے ای اے) کو اپنی ایٹمی تنصیبات تک فوری رسائی دے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے امیر سعید نے سلامتی کونسل کے اراکین کو بتایا کہ تہران نے جوہری معاہدے پر مکمل اور نیک نیتی سے عمل کیا، یہ ای 3 ممالک تھے جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی دکھائی، خالی وعدوں کے پیچھے چھپتے ہوئے واشنگٹن کی رہنمائی اور ہدایات پر عمل کیا اور اب ایک حیرت انگیز دوہرے معیار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کو ان اقدامات کیلئے سزا دے رہے ہیں جو ہم نے صرف ان کی خلاف ورزیوں کے سالوں بعد اٹھائے ہیں، ایران کسی پیشگی شرط پر اپنے پُرامن ایٹمی پروگرام پر مذاکرات نہیں کرئے گا لیکن ہم سفارتکاری کیلئے تیار ہیں اور سفارتکاری کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا رہے گا، ایران نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ کس سے اور کس بنیاد پر مذاکرات کرنا ہیں۔

گذشتہ ماہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے تہران پر ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزیوں سے متعلق سکیورٹی کونسل کو ایک خط تحریر کیا تھا، جس میں یورینیم کا ذخیرہ جمع کرنے کا الزام بھی لگایا گیا تھا ہے، جو جے سی پی او معاہدے کی حد سے 40 گنا زیادہ ہے۔

مغربی طاقتیں اور اسرائیل طویل عرصے سے تہران پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کا الزام لگاتے ہیں جسے ایران مسترد کرتا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعہ کو کہا کہ انہوں نے یورپی طاقتوں کے سامنے ایک منصفانہ اور متوازن تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد پابندیوں کی واپسی کو روکنا ہے، 2018ء میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکہ کو معاہدے سے نکالنے کے بعد سے ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کی معاہدے کے تحت ذمہ داریوں کو بتدریج کم کردیا تھا اور یورینیم افزودگی کو بڑھانے کیساتھ ساتھ دیگر جوہری سرگرمیوں کو بڑھایا تھا، جون میں اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ اور اسی دوران امریکی حملوں کے بعد کشیدگی مزید بڑھ گئی، جس کے نتیجے میں امریکہ اور ایران کے درمیان بلواسطہ جوہری مذاکرات کا عمل معطل ہوگیا تھا اور تہران نے انٹرنشنل ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون ختم کردیا تھا، جمعرات کو ایران نے انٹرنیشنل اتومی توانائی ایجنسی کی جنرل کانفرنس میں ایک مسودہ قرارداد واپس لے لی گئی تھی جس کا مقصد ایران کے جوہری مراکز پر حملوں کو ممنوع قرار دینا تھا، سفارتکاروں کے مطابق قرارداد واپس لینے کا فیصلہ امریکی دباؤ کا نتیجہ تھا، اس ملک کی خارجہ پالیسی میں اسرائیلی مفادات کو مقدم رکھنے کا اُصول بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

اقوام متحدہ میں اسنیب بیک میکنزم کو فعال کرنے کی قرارداد منظور ہوجانے کے باوجود سفارتی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا اور فریقین کے پاس آخری لمحے کی مذاکرات کیلئے وقت موجود ہے۔

خیال رہے کہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان اگلے ہفتے اقوام متحدہ کے سالانہ اجتماع میں شرکت کریں گے، جو پابندیوں کے باضابطہ طور پر نافذ ہونے سے پہلے بات چیت کا اہم موقع ہوسکتا ہے، روس اور اس کے اتحادیوں نے پہلے ہی یورپی طاقتوں کی جانب سے ایران کے خلاف فوری پابندیوں عائد کرنے کے معاملے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔

روس اور چین کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکہ بھی جوہری معاہدہ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، اور یہ تقسیم ااقوام متحدہ کے نظام کی اتھارٹی کو کمزور کر دے گی، اگر ایران اور اس کے شراکت دار پابندیوں کو بحال شدہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں تو تہران این پی ٹی معاہدے سے نکلنے سے رُک سکتا ہے، ایران کی جانب سے این پی ٹی معاہدہ سے اسرائیل مشتعل ہوسکتا ہے اور اس موسم گرما کے تنازع کو دوبارہ بھڑکا سکتا ہے تاہم انٹرنشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کی چین، روس اور دیگر ممالک کی حمایت سے پیش کردہ قرارداد منظور کرلی جاتی ہے تو صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کا موقع ملے گا۔

قرارداد جون 2025 میں ایران کے جوہری مقامات پر کیے گئے اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے، قرارداد کی منظوری ایران کے زخموں پر مرہم کے مترادف ہوتا لیکن امریکہ نے عالمی ایٹمی ایجنسی کو دھمکی دی تھی کہ اگر قرارداد منظور ہوئی تو امریکہ آئی اے ای اے کی مالی معاونت کم کردے گا، اس وقت امریکہ اپنے غرور میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایران کے این پی ٹی معاہدے سے نکلنے سے ایران پر اپنی عوام اور مسلم اُمہ کا دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ ایٹمی دھماکے کرائے۔

Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News


Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.

اوپر تک سکرول کریں۔