قطر پر حملہ: امریکا کی حمایت بھی عرب ممالک کو اسرائیلی جارحیت سے نہ بچا سکی

قطر پر حملہ: امریکا کی حمایت بھی عرب ممالک کو اسرائیلی جارحیت سے نہ بچا سکی
رواں سال کا ایک اہم واقعہ 9ستمبر کواُس وقت پیش آیا جب اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر دن کی روشنی میں حملہ کیا، اس حملےمیں ہلاک ہونے والوں میں ایک قطری سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھا۔
یہ وہی قطر ہے جسے امریکہ نے اہم غیر نیٹو اتحادی کا درجہ دیا ہوا ہے، اسرائیل نے اس کارروائی کا جواز یہ بتایا کہ قطر میں حماس کے سیاسی شعبے کےاہم رہنما موجود تھےحالانکہ انہی رہنماؤں کی میزبانی کیلئے تل ابیب نے قطر سے درخواست کی تھی تاکہ امریکہ کو اس تحریک پر بالواسطہ اثر و رسوخ حاصل رہے ، یہ حیران کُن حقیقت ہے کہ حماس کے انہی رہنماؤں سے مذاکرات کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی معاہدہ کیا جس سے اسرائیلی شہریوں کی رہائی ممکن ہوئی جبکہ اسرائیل کوبھی ایک معقول تعداد میں فلسطینیوں کو رہا کرنا پڑا، جن میں ڈاکٹرز اور خواتین بھی شامل تھیں، اِن کا تعلق غزہ کے علاوہ غرب اردن سے بھی تھا جہاں فلسطینی اتھارٹی کی نام نہاد حکومت قائم ہے۔
قطر پر حملے نے پورے خطے کو یہ پیغام بھی دیا کہ اسرائیل اپنی فوجی طاقت کا استعمال کرکے کسی بھی ملک کو نشانہ بناسکتا ہے، حتیٰ کہ ان ریاستوں کے خلاف بھی جو براہِ راست اس کی مخالفت نہیں کرتیں اور اِن کے دفاع کو امریکی چھٹری ملی ہوئی ہے، یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیلی فوجی طاقت خود انحصار نہیں بلکہ امریکہ اور جرمنی جیسے یورپی ملک اس کے دفاع کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، جون 2025ء میں ایران پر اسرائیلی جارحیت کاجواب دیا گیا تو تہران کا مقابلہ صرف اسرائیل سے نہیں تھا،مسلم ملکوں کے علاوہ امریکا، برطانیہ،جرمنی اور فرانس نے ایران کے جوابی حملوں کو روکا، اسکے باوجود اسرائیل کی صرف 12 دنوں میں چولیں ہل گئیں اور امریکہ کو بھی اس جنگ میں چھلانگ لگانا پڑی ، جس کے بعدغاصب اسرائیلی حکومت نے جنگ بندی کیلئے قطر اور مسقط کے ذریعےجنگ بندی کی بھیک مانگی، یہ سوال اہم ہے کہ اسرائیل کی فوجی طاقت کا ڈَھنڈورا کیوں پیٹا جاتا ہے ؟ یہ ایک پرانی استعماری چال ہےتاکہ مسلم حکومتوں کو نفسیاتی طور پر مرعوب رکھاجائے،پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جو تل ابیب کو ایک ہی حملے میں نیست ونابود کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اب جبکہ پاکستان اور سعودی عربیہ کے درمیان دفاعی معاہدہ ہوچکا ہے، اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا پاکستان کیلئے ممکن ہے، سعودی ڈی فیکٹو بادشاہ محمد بن سلمان نے پاکستان کیساتھ دفاعی معاہدہ کرکے بروقت اور درست فیصلہ کیاہے جو 2019ء سے التواء کا شکار تھا۔
قطر پر حملہ کرکے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نےسنگین سفارتی غلطی کا ارتکاب کیاہے، جس نے اسرائیل کی تنہائی میں بہت اضافہ کردیا، یہ کارروائی اگرچہ حماس کے رہنماؤں کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوئی لیکن اس نے ایک سرخ لکیر عبور کی ہے، تل ابیب نے خلیج فارس میں واشنگٹن کے اتحادیوں کو نشانہ بناکر اس سوال کی شدت بڑھادی ہےکہ کیااسرائیل فوجی غرور میں مبتلا ہوکر سعودی عرب ترکی، مصر ، اردن، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے خلاف بھی اسی طرح کی کارروائی کرسکتا ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ تل ابیب کی جانب سےسعودی عرب پر شدید دباؤ ہے کہ وہ معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہو اور اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لائے، نتین یاہو اسکا صرف سیاسی فائدہ نہیں دیکھ رہے بلکہ وہ گریٹر اسرائیل کے خواب کو تعبیر دے کر وہ صیہونیت کے سب سے بڑے ہیرو بننا چاہتے ہیں،یہاں اس بات کا ذکر بےمَحل نہیں ہوگاکہ 15 اگست 2024ء کو سعودی ڈی فیکٹو بادشاہ محمد بن سلمان کی ایک گفتگو تین معتبر ذرائع سے امریکی اشاعتی ادارےپولیٹیکو میں شائع ہوچکی ہےجس کے مطابق امریکی حکام سے مذاکرات کے دوران اُنھوں نےکہا کہ فلسطینیوں کو انصاف ملے بغیروہ چاہ کر بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں خطرہ ہےاس اقدام کے بعد سعودی شہری انہیں قتل کردیں گے،ان کی یہ گفتگو بظاہر مصری صدر انور سادات کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مثال کے طور پر تھی، سعودی ڈی فیکٹو بادشاہ محمد بن سلمان نے معاہدہ ابراہیمی میں شمولیت کو فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط کرکےاپنے اوپر جو دباؤ لیا تھا وہ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرکے ختم ہوچکا ہےلہذا ہم یہاں پر قطعیت کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ قطر پر اسرائیل نے حملہ کرکےجوسرخ لکیر عبور کی اُسکی وجہ سےتل ابیب صرف سفارتی تنہائی کا شکار نہیں ہوا بلکہ اسکی سالمیت پر سوال اُٹھ چکا ہے۔
اس حملے کا ایک ثانوی مقصد قطر کے میڈیا خاص طور پر الجزیرہ کی غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بعداختیار کردہ پالیسی کو تبدیل کرانا تھا ، الجزیرہ نے غزہ جنگ میں فلسطینی بیانیے کو عالمی سطح پرپہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ، جس نے اسرائیلی تنہائی کو بڑھایا ،اسرائیل پہلے ہی اس چینل کو بند کرنے اور اس پر پابندیاں لگانے کے اقدامات کیساتھ ساتھ الجزہرہ سے وابستہ صحافیوں کو قتل کرچکا ہے،قطر پر حملہ اس میڈیا کمپنی کیلئے ایک کھلا پیغام تھا کہ حماس کی حمایت اب اُسے مہنگی پڑنے والی ہے۔
اسرائیلی قیادت نےامریکہ کے نان نیٹون اتحادی ملک قطر پر حملہ کرکے واشنگٹن کیلئے مغربی ایشیاء میں مشکلات بڑھا دیں ہیں وائٹ ہاؤس میں بیٹھے بے وقوف شخص ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی مذموم اقدام سے علم رکھنے کے باوجود کچھ نہیں کرکے ثابت کردیا ہےکہ امریکی حمایت کسی عرب ملک کو اسرائیلی لاڈلے سے نہیں بچاسکتی ، جس کی امریکہ نے قیمت چکانا شروع کردی ہے جبکہ اس کی بڑی قیمت اسرائیل کو بھی چکانا ہوگی کیونکہ ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک پاکستان مملکت سعودیہ عربیہ کا عسکری اتحادی بن چکا ہے۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.
خاص خبریں
Advertisement