مسئلۂ فلسطین: بانیٔ پاکستان کا موقف ہی تسلیم کیا جائے گا

مسئلۂ فلسطین: بانیٔ پاکستان کا موقف ہی تسلیم کیا جائے گا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کا پُرجوش خیرمقدم کرنے پر وزیراعظم شہباز شریف کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
پاکستان میں عمومی طور پر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کو اسرائیل کی نسل کشی کی پردہ پوشی کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ شہباز شریف نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ وہ اس بات پر قائل ہیں کہ فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان پائیدار امن خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کیلئے ضروری ہے تاہم پاکستانی عوام نے مبینہ طور پر دھاندلی کے ذریعے بنائی گئی حکومت کے اس مؤقف کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور چند گھنٹوں میں سوشل میڈیا پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ سوشل میڈیا صارفین نے شہباز شریف پر الزام لگایا کہ وہ واشنگٹن کو خوش کرنے اور پاکستان کا فلسطین پر دیرینہ موقف دفن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایک ہی ٹویٹ میں اسرائیل کو جائز حیثیت دینے کی سازش پر ملوث ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے قائد اور سابق وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں تذکرہ کیے جانے والے لندن پلان کو بعض حلقوں نے یاد کیا، جن کے مطابق ملک میں ایک ہائبرڈ نظام حکومت قائم کر کے اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کروایا جانا تھا۔ بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا تھا جو فلسطینی وطن پر قائم کی گئی ہے۔ اسی پسِ منظر میں، جب ٹرمپ کے ساتھ ملاقاتیں اور لنچ ہو رہے تھے تو پاکستان میں حساس حلقوں کو خدشات ہونے لگے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ عوام کو مبینہ طور پر بیوقوف بنانے کیلئے کبھی واشنگٹن سے پاکستان میں بڑی مقدار میں تیل نکلنے کی جھوٹی نوید دی گئی اور کبھی نایاب دھاتوں کا شوشہ چھوڑا گیا جبکہ پشتِ پردہ گہری سازشیں جاری تھیں۔ پاکستان کی فوج اور عوام ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ فلسطینی مزاحمتی قوتیں، خاص طور پر حماس اور اسلامی جہاد، اسرائیل کے سامنے تسلیم ہو جائیں اور خطے پر اسرائیل کی بالادستی قبول کر لی جائے۔ غزہ میں اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو قریباً دو سال ہو چکے ہیں مگر اس دوران پاکستان کے ہائبرڈ نظام نے کوئی مؤثر عملی قدم نہیں اٹھایا۔ اس سے بھی شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اندرونِ خانہ کسی بڑی سازش کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ لومڑی کی طرح موقع پرستی اور فریب میں مہارت رکھتے ہیں مگر انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ لومڑی کی عیاری ہاتھی کو نہیں ہرا سکتی۔ ٹرمپ مزاحمت کو ختم نہیں کر سکتے۔ مزاحمت تو فلسطین و لبنان سے نکل کر یمن پہنچی، وہاں سے یورپ تک اور پھر امریکہ اور کینیڈا تک پہنچ چکی ہے۔ مزاحمت اُن گھناونے منصوبوں کے خلاف ہاتھی کی مانند مضبوط ہے جس کے پاؤں تلے صہیونیت کچلی جائے گی۔ فلسطینی مزاحمت ختم کرانے کیلئے ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ ناکام رہے گا اور یہ داغ امریکی صدر کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ 60 ہزار فلسطینیوں کو قتل کرنے اور غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے باوجود اسرائیل نے وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا جو ٹرمپ بعض مسلم حکمرانوں کی خیانت کی وجہ سے اُسے دینا چاہتے ہیں۔
فلسطینی مزاحمتی تحریک اسلامی جہاد کے سیکریٹری جنرل زیاد النخالہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی مذموم منصوبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو دوام بخشنے کا نسخہ قرار دیا ہے۔ النخالہ نے زور دیا کہ یہ تجویز جسے ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ پیش کیا، مکمل طور پر قابض صہیونی حکومت کے وژن کی عکاس ہے۔ یہ واضح ہے کہ اسرائیل امریکہ کی حمایت سے وہ کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے جو وہ میدانِ جنگ میں حاصل نہیں کر سکا لہٰذا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ٹرمپ منصوبہ خطے میں امن کے بجائے نئے خطرات کو جنم دے گا۔
ٹرمپ نے اس نام نہاد امن منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ 20 نکات اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر مسلم اور عرب رہنماؤں کے سامنے پیش کیے تھے، جس میں ایک ملک پاکستان بھی تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیلی وزیراعظم کی موجودگی میں اعلان شدہ 20 نکاتی منصوبے کے فوراً بعد اس کی حمایت میں بیان جاری کیا، جس پر ملک میں مخالف آراء تیزی سے سامنے آئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق یہ اقدام خطے میں امن کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ فلسطینی اور اسرائیلی عوام کے درمیان پائیدار امن نہ صرف سیاسی استحکام لائے گا بلکہ معاشی ترقی کے نئے دروازے بھی کھولے گا۔ وزیراعظم نے یہ بھی زور دیا کہ مستقل اور پائیدار امن کیلئے دو ریاستی حل ناگزیر ہے کیونکہ یہی طریقہ فلسطینی عوام کے دیرینہ حقوق اور خطے کے امن و استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے۔
تاہم موجودہ حکومت کی جانب سے ٹرمپ منصوبے کی حمایت نے بہت سے پاکستانیوں کے دل شکستہ کیے ہیں۔ بعض حلقوں نے سعودی قیادت پر بھی تنقید کی ہے کہ وہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر معاہدۂ ابراہیمی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ ان کے بقول ریاض نے مسلم اُمہ کے متفقہ موقف میں دراڑ ڈالی اور گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے کیلئے راستہ ہموار کیا ہے۔ زیادہ آگے بڑھنے سے پہلے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے کہ مسئلۂ فلسطین کے بارے میں بانیٔ پاکستان کا موقف قومی تاریخ اور وقار کا حصہ ہے۔ پاکستان کے مسلمان عوام اسی موقف کو تسلیم کریں گے اور کسی بھی قسم کی خیانت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.