صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ: بین الاقوامی قانون کی کھلی پامالی

اسرائیلی بحریہ نے ایک بار پھر غزہ جانے والی امدادی فلوٹیلا کو زبردستی روک کر درجنوں امدادی کارکنوں کو عملاً اغوا کرلیا۔
اسرائیل نے کبھی بھی عالمی قوانین اورمہذب دنیا کی روایات خیال نہیں رکھا،دنیا کی سب سے جارح اور باغی ریاست اسرائیل سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے، جو صرف نسل کشی ہی نہیں کر رہی بلکہ خطے میں جارحانہ جنگیں بھی چلا رہی ہے اور پوری دنیا کے سامنے دہشت گردی پر مبنی ٹارگٹ کلنگ اس کا طرہ امتیاز ہے، غزہ میں فلسطینیوں پر آب و دانہ بند کئے دہائیاں گزر چکی ہیں مگر انسانیت کے خلاف اس جرم کو روکنے کیلئے کسی جانب سے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے، اسرائیل کی جانب سے غزہ میں خواراک اور ادویات کیلئے ناکہ بندی کرنےکا بنیادی مقصد فلسطینیوں کو اپنی آبائی زمین چھوڑنے کیلئے مجبور کرنا ہےاور یہ دہشت گردی کی بدترین شکل ہے، گلوبل صمود فلوٹیلا کے خلاف اسرائیلی بحریہ کے آپریشن نےایک بار پھر دنیا کے متمدن شہریوں میں غم و غصّہ بھر دیا،سوشل میڈیا پر اسرائیلی اقدام کو سنگین دہشت گردی سے تعبیر کیا جارہا ہے، گلوبل صمود فلوٹیلا تقریباً 50 کشتیوں پر مشتمل تھا جو دنیا کے مختلف ممالک سے امدادی کارکنوں اورغزہ کے محصور عوام کیلئے انسانی امداد لے کر جا رہی تھیں، اسرائیلی فورسز نے بین الاقوامی پانیوں میں کارروائی کرتے ہوئے ان کشتیوں کو روکااور عملے سمیت امدادی کارکنوں کو عملاً اغوا کرلیا، اسرائیلی بحریہ کا یہ اقدام محض غیرقانونی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی ماہرین قانون کے مطابق بحری قزاقی کے زمرے میں آتا ہے۔
غزہ کی ناکہ بندی کو تقریباً دو دہائیاں مکمل ہونے کو ہیں، جو خود عالمی قانون کے تحت اسرائیل انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے، جس نے غزہ کو قحط زدہ خطے میں تبدیل کررکھا ہے،اسرائیل کا یہ کہنا کہ یہ ایک وقتی اقدام ہےسفید جھوٹ ہے کیونکہ سان ریمو قوانین کے مطابق بھی انسانی امداد کو روکا نہیں جا سکتا،اس عالمی قانون کے تحت اگر کوئی جہاز خوراک، ادویات یا دیگر ضروری امداد لے کر جا رہا ہو تواسے گزرنے دیا جائے گا، ایسی امداد کو روکنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، سان ریمو قوانین کے مطابق کسی ملک کو دوسرے کے جہاز پر بین الاقوامی پانیوں میں کارروائی کرنے کا کوئی حق نہیں، سوائے اس کے کہ وہ جہاز جنگ میں براہِ راست حصہ لے رہا ہو، بین الاقوامی عدالت انصاف گزشتہ سال یہ واضح کرچکی ہے کہ غزہ کے ساحل کے سامنے سمندر پربنیادی حق صرف اور صرف فلسطینیوں کا ہے، جن پر اسرائیل کی کوئی خودمختاری نہیں، اس کے باوجود اسرائیلی افواج نے نہ صرف کشتیوں پر حملہ کیا بلکہ 40 سے زائد ممالک کے شہریوں اور جہازوں کو نشانہ بنا کر ان سب کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ہے، اِن ملکوں میں آسٹریلیا، برازیل، جنوبی افریقہ، ترکی، پاکستان، بنگلہ دیش، اسپین، انڈونیشیا سمیت دیگر اہم ممالک شامل ہیں، یہ پہلا واقعہ نہیں 2010ء سے اب تک اسرائیل کئی بار امدادی بیڑوں کو روک چکا ہے اور ماضی میں بعض انسانی حقوق کے کارکن اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے، اس طرزِ عمل سے واضح ہے کہ اسرائیل کیلئے قانون اور ضابطے کوئی معنی نہیں رکھتے، اب دیکھنا ہوگا کہ متذکرہ بالا ممالک اسرائیلی جارحیت کے جواب میں کیا کرتے ہیں البتہ سب سے موثر جواب کولمبیا نے دیا ہے، کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے ملک میں موجود تمام اسرائیلی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے، صدر کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دو کولمبین شہری اُن کشتیوں میں سوار تھے جنہیں اسرائیلی فوج نے قبضے میں لیا ہے، صدر پیٹرو نے بدھ کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ یہ کولمبین شہری فلسطینوں کے ساتھ یکجہتی اور انسانی ہمدردی کی سرگرمیوں میں حصّہ لینے کے مقصد کے تحت فلوٹیلا کا حصّہ بننے تھے، جن کے خلاف اسرائیلی فوج نے ناروا سلوک برتا، کولمبیا نے اسرائیلی سفارتکاروں کی ملک بدری کے ساتھ ہی اسرائیل کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ بھی معطل کرنے کا اعلان کیا ہے، اصل سوال یہ ہے کہ اسرائیل ایسی قانون شکنی پر ہمیشہ کیسے بچ نکلتا ہے؟ جواب سیدھا ہے اسے مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا شریک مجرم ہے جو اس کے جرائم میں سہولت کاری کرتا ہے، روان سال ایران کے خلاف امریکی و اسرائیلی جنگی اتحاد اس بات کی تازہ مثال ہے۔
گلوبل فلوٹیلا گزشتہ ماہ اسپین سے روانہ ہوئی تھی، جس میں 40 سے زائد ممالک کے کارکن شامل تھے، جن میں سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی موجود تھیں ،صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی جارحیت آزاد دنیا کا بڑا امتحان ہے،کیا مسلم اور یورپی ممالک اسرائیل کے خلاف کولمبیا کی طرح کی کارروائی کرسکتے ہیں؟ بدقسمتی سے اس کا بہت کم امکان ہے، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے حال ہی میں فلسطینی ریاست کو نمائشی طور پرتسلیم توکیا ہےاور اسرائیل پر زبانی تنقید بھی کی ہے لیکن عملی طور پر وہ اب بھی اسرائیل اور امریکہ کے تابع ہیں، حتیٰ کہ کچھ مغربی جنگی جہاز جو بظاہر فلوٹیلا کی حفاظت کیلئے ساتھ تھے، اسرائیلی حملے سے قبل ہی پیچھے ہٹ گئے، جس نے مغرب کی دوغلی پالیسی کو بے نقاب کر دیا، آج مغربی رہنما روس سے تیل اور دیگر اجناس کی تجارت کرنے کے خلاف کہتے ہیں کہ جارح کو انعام نہ دیا جائے لیکن اسرائیل کی نسل کشی پر ان کی آنکھیں بند ہیں یہی دہرا معیار عالمی ضمیر کے زوال کی بڑی وجہ ہے۔ تاہم امید ختم نہیں ہوئی، صمود فلوٹیلا آخری کوشش نہیں تھی، دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ تیزی سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسرائیل دراصل ایک نوآبادیاتی نسل پرست ریاست ہے جو نسل کشی اور نسلی تطہیر کے بغیر نہیں رُک سکتی، اسرائیل کی پروپیگنڈا مہمات اگرچہ تیز ہو رہی ہیں مگر وہ تاریخ کو بدل نہیں سکتیں، غزہ کی نسل کشی اب ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے، جو دنیا کبھی فراموش نہیں کرے گی اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ بھی کبھی ختم نہیں ہوگا۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.