صمود فلوٹیلا آخری کوشش نہیں غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانا حتمی نتیجہ ہونا چاہیئے

اسرائیل کی غزہ جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کو کھلی دھمکی
اسرائیل نے غزہ کیلئے انسانی بنیادوں پر امداد لے جانے والے بحری قافلے گلوبل صمود فلوٹیلاپر سوار137 انسانی بنیادوں پر سرگرم کارکنوں کو حراست میں لیکر اب ہفتے کو ترکی جلاوطن کر دیا ہے، جہاں ان کی آمد استنبول ایئرپورٹ پر ہوئی۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی حکام نے فلوٹیلا پر سوارسویڈن کی مہم جو گرِیٹا تھیونبرگ کے ساتھ حراست کے دوران بدسلوکی کی ہے، امریکی کارکن وِن فیلڈ بیور نے ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ میں نے گرِیٹا تھیونبرگ کےساتھ بدسلوکی ہوتے دیکھی، اسے زبردستی دھکیلا گیا اور اسرائیلی پرچم اوڑھنے پر مجبور کیا گیا جبکہ پاکستان کی نمائندگی کرنے والے دوارکان جن میں سینیٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈرکن مشتاق احمدبھی شامل ہیں ابھی اسرائیلی حکام کی قید میں ہیں، استنبول پہنچنے والے 137 کارکنوں میں 36 ترک شہری شامل تھے، جب کہ دیگر کا تعلق امریکا، متحدہ عرب امارات، الجزائر، مراکش، اٹلی، کویت، لیبیا، ملیشیا، موریتانیا، سوئٹزرلینڈ، تیونس اور اردن سے ہے، اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے سماجی پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ تمام زیرِ حراست کارکن محفوظ اور صحت مند ہیں اور باقی ماندہ افراد کی واپسی جلد از جلد مکمل کی جا رہی ہے، اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے کہا کہ 26 اطالوی کارکن ترکی ایئرلائنز کی پرواز سے واپس پہنچ گئے ہیں، جب کہ مزید 15 اب بھی اسرائیل میں زیرِ حراست ہیں، اسرائیلی عرب شہریوں پر مشتمل این جی او عدالہ کے مطابق کچھ قیدیوں کو وکیلوں، پانی اور دواؤں تک رسائی سے محروم رکھا گیا، عدالہ کا کہنا ہے کہ بعض شرکا کو فری فلسطین کے نعرے لگانے پر کم از کم 5 گھنٹے تک زپ ٹائیز سے باندھ کر گھٹنوں کے بل بٹھایا گیا۔
اگرچہ اسرائیلی حکومت کا انسانی حقوق کیلئے سرگرم کارکنوں پر تشددسراسر مجرمانہ عمل ہےلیکن جب کسی ریاست کی بنیاد ہی غیرقانونی اور تاریخ انسانیت کے خلاف جرائم پر مبنی ہو ہو تو اُس سے ہر جرم کے ارتکاب کی توقع کرسکتے ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے متمدن دنیا جن قوانین پر اتفاق کیا ، اُن کی بے احترامی اسرائیلی ریاست کا شعار رہا ہے، اگر 1973ءمیں عرب کمزوری نہ دیکھاتے اور گولان پہاڑیوں سے دستبردار نہ ہوتےتو اس ناجائز ریاست کی وزیراعظم گولڈا مئیر نےعربوں کے خلاف ایٹمی ہتھیار تک استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرلی تھی ، گولڈا مئیر نے اسرائیل کی ایٹمی فورسز کو انتہائی ہنگامی حالت پر جانے کا حکم دیا ، اس فیصلےکو اسرائیلی دفاعی پالیسی میں سمسن آپشن کہا جاتا ہے، اس پالیسی کی بنیاد یہ ہے کہ اگر اسرائیل کی بقا خطرے میں ہو تو وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ خود کو بھی تباہ کر دینے کو تیار ہے،امریکی محقق سیمور ہرش نے اپنی کتاب میں لکھا کہ گولڈا مئیر نے 8 یا 9 اکتوبر 1973 کو اسرائیلی ایٹمی یونٹس کو فعال حالت میں جانے کی اجازت دی، اسرائیل کے پاس اُس وقت 13 سے 15 ایٹمی وارہیڈز تیار حالت میں تھے جبکہ امریکی سیٹلائٹس نے اُس وقت ڈیمونا ایٹمی مرکز میں سرگرمیوں میں اضافہ رپورٹ کیا۔
مرتے ہوئے بچوں اور عورتوں کو بچانے کیلئے گوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ کرکےاسرائیلی ریاست ایک بار پھر ننگی جارحیت کی ہے اور اس دوران مغربی ممالک کی حکومتیں اور خاص طور پر صدر ٹرمپ بے حیائی کی حد تک برہینہ نظر آرہے ہیں، اسرائیلی بحریہ نے غزہ جانے والی صمود فلوٹیلا کو زبردستی روک لیا، اورتقریباً 50 کشتیوں میں سوار انسانی حق کو منوانے کیلئے مختلف ملکوںآئے ہوئے کارکنوں کو زبردستی اغواء کیا ،اسرائیل کی اس حرکت پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی ادارے جو نوٹس لینا چاہیئے ورنہ نائن الیوں کو بھی جائز قرار دینا پڑسکتا ہے۔
صمود فلوٹیلا رضاکاروں کی ہرممکن کوشش تھی کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کےپیدا منصوعی قحط کی پیدا کردہ صورتحال میں شگاف ڈال کر انسانی امداد فلسطینیوں تک پہنچا سکے،غزہ جو تقریباً دو برس سےمنظم اسرائیلی نسل کشی کا نشانہ بنا ہوا ہے، جہاں لوگ خوراک ، ادویات کی کمی اور پانی کی بندش کی وجہ سے فلسطینی موت کو گلے لگارہے ہیں ، دنیا کی سرمایہ پرست حکومتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس امداد کو فلسطینیوں تک پہنچنے کیلئے راہ ہموار کرتےلیکن دنیا کے سب سے جارح ، منہ زور اور دہشت گرد ملک اسرائیل کو مجبور نہیں کیا جارہا ہے کہ فلسطینیوں کی ناکہ بندی ختم کرئے،جو نہ صرف نسل کشی کر رہا ہے بلکہ پورے خطے میں جارحانہ جنگیں چھیڑ رہا ہے اور عالمی برادری کی آنکھوں کے سامنے دہشت گردانہ قتل کی مہم چلا رہا ہے؟ صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کےحملے کیلئے بحری قزاقی کی اصطلاح استعمال کرنا بجاطور پر درست ہے، اسرائیل فوج کو اس طرزِعمل میں خاص مہارت حاصل ہے ، 2010 سے اب تک کئی بار اس نے سمندری راستے سے امداد پہنچانے کی متعدد کوششوں کواسرائیلی فوج روک چکی ہےاور اس سے قبل انسانی حقوق کیلئے سرگرم کارکنوں کی جانیں بھی لی گئی ہیں۔
صمود فلوٹیلاکو روکنا محض جرم نہیں بلکہ ہر قانونی پیمانے کے مطابق ایک ہمہ گیر جرم تھا ، اسرائیلی قانون شکنی کی ایک اور مثال ہے اسرائیل نے یہ حملہ بین الاقوامی پانیوں میں کیا، جہاں اسکا کوئی قانونی دائرۂ اختیار حاصل نہیں اور اگر یہ جہاز غزہ کے ساحل کے قریب بھی پہنچ جاتے تو تب بھی وہ کسی اسرائیلی سمندری حدود کی خلاف ورزی نہیں کرتے کیونکہ غزہ کے ساحل کے سامنے ایسی کوئی اسرائیلی حدودنہیں ہے ، عالمی عدالتِ انصاف نے گزشتہ برس واضح طور پر قرار دیا کہ اسرائیل کو غزہ کی سمندری حدود پر کوئی خودمختاری حاصل نہیں حقیقت میں غزہ کے ساحل سے متصل پانی فلسطینی علاقائی پانی ہیں۔
غزہ کی ناکہ بندی جو موجودہ نسل کشی اور نسلی تطہیر کی مہم سے کہیں پہلےتقریباً دو دہائیوں سے جاری ہے ،جوعالمی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے، اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ یہ ناکہ بندی عارضی جنگی اقدام ہے، صریح جھوٹ ہے، سان ریمو قوانین جن کا حوالہ اسرائیل دیتا ہےدراصل سمندری مسلح تنازعات میں بین الاقوامی قانون کا خلاصہ ہےاور اُن کے تحت بھی اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ انسانی امداد کو گزرنے دے، اس کے علاوہ، چونکہ اسرائیل نے 40 سے زیادہ ممالک کے شہریوں اور جہازوں پر حملہ کرکے نہ صرف بین الاقوامی قانون کے تحت ان سب کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ہے بلکہ جن ملکوں کے شہری صموڈ فلوٹیلاپر سوار تھے ، اُن کے اپنےقومی قوانین کے تحت بھی اسرائیل جرم کا مرتکب ہوا ہےہےکیونکہ وہ قوانین ان کشتیوں پر لاگو ہوتے ہیں۔
جہاں تک قانون کا تعلق ہے، اسرائیل خود کو ہمیشہ قانون سے بالا سمجھتا ہے یہ بات کوئی نئی نہیں ہے درحقیقت، اسرائیل اپنی موجودگی کو برقرار ہی اس لئے رکھ سکا ہے کہ وہ مسلسل بین الاقوامی قانون توڑتا ہے اور بچ نکلتا ہے، یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کو یہ آزادی کیوں حاصل ہےکیونکہ مغرب، خصوصاً امریکہ اس کی مکمل سرپرستی کرتا ، صمود فلوٹیلا کے خلاف اسرائیلی اقدام دنیا بھر کے حکمرانوں کیلئے ایک آزمائش بھی تھی مغربی ممالک جیسے برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو مشروط طور پرتسلیم کیا گیا ہے اسرائیل پر لفظی تنقید کے علاوہ عملی طور پر اسرائیل اور اس کے امریکی پشت پناہوں کے سامنے مکمل طور پر سرنگوں ہیں، جن ممالک کے جنگی جہاز صمود فلوٹیلا کی حفاظت کے لئے پہنچے تھےوہ بھی ذلت آمیز انجام سے دوچار ہونے سے پہلے ہی پیچھے ہٹ گئے، صمود فلوٹیلا یقیناً آخری کوشش نہیں ہونی چاہیئےجس نے اسرائیل کی نسل کشی کیلئے کی گئی ناکہ بندی کے خاتمے کیلئے کی کوشش کی ہے۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.