آزاد فلسطینی ریاست کیلئے باقاعدہ مزاحمت کو دو سال مکمل ہوگئے!

اکتوبر7، 2023 کو اسرائیل نے بادی النظر میں فلسطینی جنگجوؤں کو موقع فراہم کیا کہ وہ غاصب اسرائیل کی مضبوط سرحد عبور کر کے اسرائیل پر حملہ کردیں جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے اور 251 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ منتقل کردیا گیا، اسرائیلی حکومت کی اس غیر متوقع کمزوری کو بہت کم زیر غور لایا گیا، اسرائیلی عوام نے بھی اس جانب توجہ مبذول نہیں کی، غور طلب بات یہ ہے کہ موساد دنیا بھر میں سرگرم ہے اور گھروں میں بیٹھے اپنے مخالفین کو دہشت گردی کا نشانہ بناتی وہ کس طرح اتنی بڑی کارروائی سے قبل بے خبر رہی۔
اکتوبر8، 2023 کو اسرائیلی حکومت نے غزہ پر جوابی حملہ شروع کیا، جس کے بعد کے دو سال فلسطینیوں کیلئے انتہائی المناک ثابت ہوئے، غزہ کی وزارتِ صحت کے محتاط اندازوں کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں کم از کم 66,000 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جن میں تقریباً 80 فیصد عام شہری جن میں بچے اور عورتیں شامل ہیں ، جب کہ 1,69,000 سے زائد زخمی ہوئے، بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد بڑھے گی کیونکہ لاپتہ افراد کے بارے میں کسی کے پاس وضاحت موجود نہیں ہے دراصل اسرائیلی فضائیہ نے غزہ میں ایسی وحشیانہ بمباری کی ہے، جس کی وجہ سےغالب امکان یہی ہے کہ زیادہ تر لاپتہ افراد ملبے تلے خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔
غزہ پر حملے کیلئے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے جنگ کے دو بڑے مقاصد طے کیےتمام یرغمالیوں کی بازیابی اورحماس کا مکمل خاتمہ کرنا، اسرائیل دو سال گزرنے کے باوجود وہ دونوں مقاصد حاصل نہیں کر پایا 251 یرغمالیوں میں سے 148 کو زندہ واپس لایا جا چکا ہے ، آٹھ کو اسرائیلی فوج نے بازیاب کیا، جبکہ 140 کو حماس نےہزاروں فلسطینی قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیا، کئی ہلاک شدہ یرغمالیوں کی لاشیں بھی واپس کی گئیں ،اسرائیلی حکومت کے مطابق 20 یرغمالیوں کے زندہ ہونے کا امکان ہے، حماس جو فلسطینیوں کی سب سے بڑی نمائندہ مزاحمتی تنظیم ہے اسرائیل سمیت امریکہ، اور یورپی یونین کے ممالک اسےدہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں ،اب بھی غزہ میں ایک ناقابل شکست حقیقت کے طور پرموجود ہے، اگرچہ اس کے کئی کمانڈر شہید ہو چکے ہیں اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار سمیت کئی رہنماؤں کو ہدف بناکر شہید کردیا ہے۔
ستمبر 2025 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے لیے ایک 20 نکاتی جنگ بندی کا منصوبہ پیش کیا جس میں باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی، حماس کا غیر مسلح ہونا اور اُن جنگجوؤں کو معافی دینے کی بات کی گئی ہے جو اسرائیل کے ساتھ پرامن بقائے باہمی پر آمادہ ہوں یعنی عملاً حماس کے عسکری وجود کا خاتمہ کرنا ہے، اِن نکات میں فلسطینی ریاست کا قیام اور قبولیت کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، جواس بات کا اشارہ ہے کہ اسرائیل کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیائی ملکوں پر سیاسی خوف باقی رہے ،گزشتہ دو برسوں کے دوران جنگ صرف غزہ تک محدود نہیں رہی، لبنان کی حزب اللہ اور یمن کے حوثی گروہوں نے بھی حماس سے اظہارِ یکجہتی کیلئے اسرائیل پر شدید حملے کئے یہ مزاحمتی تکون یعنی حماس، حزب اللہ اور حوثی اسلامی نظریہ کی بنیادپرقائم ہیں، جس کو اُس وقت تقویت ملی جب 1979ء میں امریکی پٹھو رضاشاہ پہلوی کی ایران میں شہنشاہیت ختم کرکے امام خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلابی حکومت نے مسلم اتحاد کا نعرہ بلند کیا ، 2024ءاور 2025 میں حزب اللہ نے اسرائیل پر متعدد حملے کیے جبکہ حوثیوں نے بھی بارہا اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کیے، جس نے اسرائیلی معیشت کو خاصہ نقصان پہنچایا ۔
اسرائیل کی معیشت کو براہِ راست اور بالواسطہ معاشی سگنلز، سرمایہ کاری، سیاحت، افرادی قوت کی کمی وغیرہ سےپہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 50–60 بلین ڈالر کے قریب لگایاگیا ہے اور اگر بالواسطہ وطویل مدتی اثرات شامل کیے جائیں تومعاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ دہائی بھر میں اسرائیل کا 300سے400 بلین کا معاشی نقصان متوقع ہے،اِنکے مطابق مختصر مدت میں ایک سے تین سال کے دوران معیشت کے نمایاں اشارے معمول پر آسکتے ہیں مگراسرائیلی معیشت کی مکمل یا حقیقی بازیابی کی طویل المدتی صلاحیت میں 5سے10 سال یا اس سے زیادہ لگ سکتے ہیں جوکہ سیاسی استحکام ،بین الاقوامی امداد اورسرمایہ کاری پر منحصر ہے، فوجی نقطہ نگاہ سے عبوری جائزہ لیا جائے تو اسرائیل کو اس میدان میں کافی کام کرنے کی ضرورت ہوگی، اسرائیلی فوج کا ایک بڑا حصّہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہے جسمیں سے 20 فیصد اسرائیلی فوجیوں کو طبی سہولت میسر ہےکچھ بیرون ملک طبی امداد حاصل کررہے ہیں جبکہ بقیہ اسرائیلی فوجی ویٹنگ لائن میں کھڑے ہیں، اسرائیل کیلئے یہ فوجی نقصان بہت بڑا ہے، فوج کو ایک بار پھر پوری استعداد کیساتھ کھڑا کرنے میں کم ازکم پانچ سال لگیں گے، فوجی ساز وسامان کے نقصانات اور اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقہ میں ازسرنو یہودی آبادکاری کیلئے 50 بلین ڈالر کا تخمینہ سامنے آچکا ہے، اگرامریکہ اور بعض یورپی ملکوں جن میں جرمنی ، فرانس اور برطانیہ سرفہرست ہیں مالی امداد فراہم نہ کرتے تو ابتک اسرائیل کا دیوالیہ نکل چکا ہوتا اور بحیثیت ریاست قائم رہنا مشکل ہوجاتا۔
جب بھی کوئی لکھاری اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے متعلق قلم اُٹھاتا ہے تو وہ اس غاصب ریاست کو پہنچنے والے مالی اور فوجی نقصان کو نظرانداز کردیتا ہے بلکہ اُسکی جارحانہ استعداد سے مرعوب ہوتا ہےبظاہر ایک منظرنامہ تو ایسا ہی ہے ، اسرائیل نے ایک ساتھ غزہ، لبنان، یمن، قطراور ایران پر حملے کئے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ اسرائیل کے پیچھے امریکہ، برطانیہ ،جرمنی اور فرانس کھڑے ہیں جنکی قومی فوجی استعداد اسرائیل کیلئے حاضر ہوتی ہے، ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے دوران صرف امریکہ ہی نہیں اردن، شام اور عراق کی غیرریاستی قوتیں تل ابیب کے مقاصد میں معاونت فراہم کررہیں تھیں، اردن نے اپنی ائیراسپیس اسرائیل کے دفاع میں استعمال کی یہ اقدام شرمندگی پر مبنی تھا اور اس خیانت کو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
درست ہے کہ اسرائیل نے اسلامی مزاحمتی قوتوں کے خلاف ایک ساتھ فوجی کارروائیاں کیں بیروت میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو ایک خطرناک حملے میں شہید کیا جو مزاحمت کا سب سے بڑا نقصان تھاجبکہ ستمبر 2024 میں الیکٹرانک ڈیوائسز کے دھماکوں کے ذریعے حزب اللہ کے کئی ارکان کو شہید کردیا گیا، جنوبی لبنان پر فضائی حملوں نے حزب اللہ کو مزید کمزور کیا، اسرائیل کی فضائیہ نے ایران پر بھی کئی روز تک حملے کیے، تہران میں حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل نے ایرانی حکومت کو شرمندگی سے دوچار کر دیا اُدھر امریکہ ، اسرائیل اور ترکی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی مدد کیساتھ دسمبر 2024 میں شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کیا جو ایران کے اہم اتحادی تھے تہران کیلئے ایک اور دھچکا ثابت ہوا یوں ایران، شام، لبنان اور غزہ میں اسرائیل کے مخالفین کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تاہم غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں نے عالمی سطح پر شدید مذمت کو جنم دیا، اُسےتنہائی کا احساس دلایا اسرائیلی شہریوں کو مغربی ملکوں میں خطرات کا سامنا کرنا پڑا، اسرائیلی وزیراعظم یورپ کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، کہیں اُنھیں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت گرفتار نہ کرلیا جائے ۔
گزشتہ دو برسوں میں اسرائیل نے اسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں پر بمباری کی، جس میں ہزاروں خواتین، بچے، صحافی، طبی عملہ اور امدادی کارکن مارے گئے، متعدد مرتبہ اسرائیل نے امدادی سامان کی ترسیل روک کر بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا، ان اقدامات پر اسرائیل کو فلسطینی لوگوں کی نسل کشی کا مجرم ٹہرایا گیا، اقوام متحدہ کے آزاد انسانی حقوق کمیشن، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینو سائیڈ اسکالرز اور اسرائیلی تنظیمیں بتس لیماور فزیشنز فار ہیومن رائٹس نے بھی کہا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، دسمبر 2023 میں جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں اقوامِ متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی پر مقدمہ دائر کیا گیا، نومبر 2024 میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے نیتن یاہو اور اُس وقت کے وزیرِ دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کےالزام میں وارنٹ جاری کیاحالانکہ اسرائیل اوراسکے اتحادی امریکہ نے ان وارنٹس کو مسترد کر دیا۔
غزہ کی تباہ کن صورتِ حال نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبے کو مزید تقویت دی ہے، 7،اکتوبر 2023 سے پہلے تک دنیا کے تقریباً 140 ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے تھے، جب کہ اب مزید 20 ممالک بشمول فرانس، برطانیہ، اسپین، آسٹریلیا اور کینیڈا نے بھی باضابطہ طور پر فلسطین کو تسلیم کر لیا ہے۔
اگر مجموعی جائزہ لیا جائے تو آج غزہ پر حملے کو دو سال بیت چکے ہیں، اس دوران بہت سے چہرے بے نقاب ہوئے، امریکہ کی ڈیموکریٹ اور ری پبلکن حکومتوں نے جس طرح فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کا ہاتھ بٹایا وہ پوشیدہ حقیقت نہیں رہی جبکہ دولتمند اور فوجی اعتبار سے اہم ملک سعودی عرب کا اس دوران کردار بزدلی پر مبنی رہا یہ بات یقین سے تو نہیں کی جاسکتی کہ اگر وہاں جمہوری کلچر کو پذیرائی ملتی تو سعودی عربیہ کا ناجائز ریاست کے خلاف رویہ زیادہ عملی اور سخت ہوتا کیونکہ سعودی قبائل کے دل فلسطینیوں کے ساتھ ہیں اور اسی بنا پر شہزادہ محمد بن سلمان کو خوف لاحق ہے، اردن کا بادشاہ اور مصر کا نام نہادفوجی صدر مکمل طور پر امریکی ٹاؤٹس ہیں جبکہ لبنان اور شام میں امریکہ کی تابع مہمل حکومتیں برسراقتدار آچکی ہیں۔
خلیج فارس کی تمام عرب ریاستوں میں امریکی افواج موجود ہیں اور ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے،پاکستان میں عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد سے سیاسی عدم استحکام بڑھ گیا ہے جسکا انتہائی منفی اثر معیشت پر پڑا ہے، فقط ایران وہ ملک ہے جس نے اسرائیل کے خلاف عملی مزاحمت کا بیڑہ اُٹھایا ہوا ہے ، اس سب کےغزہ پر عالمی ردعمل کا عمیق جائزہ لیں تو یہ صورتحال مایوس کُن نہیں ہے اگر عالم اسلام کی بے حسی ہے تو عالم کفر نے غزہ کے فلسطینیوں کا ساتھ دیا ہے جس نے مغربی ملکوں کی حکومتوں پر دباؤ قائم کیا اور بعض مغربی ملکوں نےاسرائیل کے حوالے سے کسی حد تک معتدل پالیسی اپنائی اورتل ابیب حکومت کے ناجائز اور انسانیت کے خلاف اقدامات پرمتحرک ہوئے۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.