اسرائیل اور پاکستان کی سفارش کے باوجود ٹرمپ نوبل انعام سے محروم کیوں ہوئے؟

اسرائیل اور پاکستان کی سفارش کے باوجود ٹرمپ نوبل انعام سے محروم کیوں ہوئے؟
سنہ 2025ء کا نوبل امن انعام ونزیویلا کی اپوزیشن سیاست دان ماریا کورینا مَچَڈو کو دیا گیا ہے یہ اعلان جمعہ کے روز کیا گیا، ایسے وقت میں جب اس سال اس انعام کی شہرت میں اضافہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کو اس انعام کیلئے نامزد کرانے کی مہم چلائی تھی جبکہ اسرائیل اور پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کیلئے باقاعدہ نامزد کیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر صدر ٹرمپ کو نوبل انعام کیلئے نامزد کیا گیا تو پاکستان میں عوامی سطح پر شدید تنقید ہوئی کیونکہ غزہ میں اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا تھا اور امریکی صدر ٹرمپ اس ناجائز ریاست کے اہم پشت پناہ بنے ہوئے تھے، واضح رہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا نفاذ ہوچکا ہے مگر یہ تاریخ انسانیت کا ایک اور دردناک المیہ ہے جس میں 70 ہزار فلسطینی مرد وخواتین اور بچے مارے گئے اور دو لاکھ کے لگ بھگ فلسطینی زخمی ہوئے جبکہ غزہ کی پٹی فی الوقت ملبے کا دھیڑ میں بدل چکی ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کیلئے کردار ادا کیا ہے جسے تسلیم نہ کرنا انصاف نہیں ہوگا مگر غزہ کیلئے اُن کے عزائم پوشیدہ نہیں ہیں، وہ اس عظیم الشان تاریخ رکھنے والی سرزمین سے کمائی کرنے کی سوچ رکھتے ہیں، قبل ازیں صدر ٹرمپ نے ایک ایسا منصوبہ پیش کردیا تھا جو انسانی تاریخ کی بڑی ہجرتوں میں سے ایک کو رقم کرتا، یہ مشکل کام تھا مگر ٹرمپ کے عزائم کے بارے میں کوئی جوشی بھی پیشگوئی نہیں کرسکتا کہ وہ کیا کرنے والے ہیں، نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ مرِیا کورِنا مَچَڈو کو نوبل انعام برائے امن اس لئے دیا گیا ہے کہ انھوں نے وینزویلا کے عوام کے جمہوری حقوق کے فروغ کیلئے انتھک محنت کی اور آمریت سے جمہوریت کی جانب انصاف پسند اور پرامن تبدیلی کیلئے جدوجہد کررہی ہیں، 2025 کا نوبل انعام برائے امن ایک ایسی خاتون کو دیا گیا ہے جو بڑھتی ہوئی تاریکی کے باوجود جمہوریت کی شمع کو جلائے رکھے ہوئے ہیں، مرِیا کورِنا مَچَڈو کو نوبل انعام برائے امن اس لئے مل رہا ہے کیونکہ وہ حالیہ وقتوں میں لاطینی امریکہ کی سب سے الگ کام کررہی ہیں، کمیٹی کے چیئرمین نے مزید کہا کہ مَچَڈو ایک متحد کرنے والی شخصیت رہی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نوبل انعام برائے امن کے پاگل پن کی حد تک خواہشمند تھے، امن کا نوبل انعام کے اعلان سے قبل اُنھوں نے غزہ میں جنگ بندی کرانے میں جلدی کی، اُنھوں نے یوکرین کی جنگ بند کرانے کیلئے جلدبازی کی جسکا نتیجہ درست نہیں نکلا کیونکہ مقابل پر روس تھا، جو یوکرین کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، غزہ میں حماس نے امن کے بدلے بڑی قربانیاں دیں ہیں تاکہ دو سالوں سے مصائب جھیلنے والے فلسطینی کچھ عرصہ آرام کرسکیں، پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو ان چند عالمی رہنماؤں میں شامل تھے جنھوں نے امریکی صدر کو ناروے میں نوبل انعام کمیٹی کے سامنے نامزد کیا تھا مگر کسی ملک کی نامزدگی اور خواہش کسی کام نہیں آئی، ٹرمپ بارہا دعویٰ کرچکے ہیں کہ وہ اس نوبل انعام کے حقدار ہیں کیونکہ ان کے بقول انہوں نے جنوری میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد متعدد بین الاقوامی تنازعات حل کیے ہیں، جس میں حالیہ غزہ کا معاملہ بھی شامل ہے، وائٹ ہاؤس کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر اسٹیون چیونگ نے اس فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی نے ثابت کردیا کہ وہ امن پر سیاست کو ترجیح دیتی ہے اور دعویٰ کیا کہ ٹرمپ امن معاہدے کرتے رہیں گے، جنگوں کا خاتمہ کریں گے اور جانیں بچائیں گے جبکہ نارویجین نوبل کمیٹی نے مرِیا کورِنا مَچَڈو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ وینیزویلا میں جمہوری آزادیوں کیلئے انتھک جدوجہد اور آمریت سے جمہوریت کی پُرامن منتقلی کے عزم کی بنا پر اس انعام کی مستحق قرار پائیں لیکن ونزیویلا کے صدر نکولس مادورو نے الزام لگایا ہے کہ کورِنا مَچَڈو امریکی فنڈز کو حکومت مخالف گروپوں تک پہنچا رہی ہیں اور انہیں واشنگٹن کے وینیزویلا کے داخلی معاملات میں مداخلت کا ایک ذریعہ قرار دیا، کورینا مَچَڈو کے امریکہ کے ساتھ دہائیوں پرانے قریبی تعلقات ہیں، 2005ء میں صدر جارج ڈبلیو بش نے انہیں اوول آفس میں خوش آمدید کہا تھا، ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں امریکہ اور کئی مغربی ممالک نے وینیزویلا کے اپوزیشن رہنما خوان گوائیڈو کو ملک کا عبوری صدر تسلیم کرلیا تھا، اگرچہ ان کی احتجاج مہم اور ناکام بغاوتوں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی کوششیں ناکام رہیں۔
نوبل امن انعام کی خوایشمندوں میں ممکن ہے صدر ٹرمپ کی نامزدگی زیر غور آئی ہو مگر رواں سال جون میں امریکہ کا بی 2 بمبار طیاروں سے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ صدر ٹرمپ کیلئے منفی پوائنٹ مانا گیا ہوگا، یہ امریکی صدر ٹرمپ کا پاگل پن تھا جب اُنھوں نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل کی خاطر حملہ کیا جبکہ وہاں 60 فیصد افزودہ یورینیم کی موجودگی کی اطلاع امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی دے چکی تھی، اگر اس حملے کی وجہ سے ایٹمی تابکاری کا اخراج ہوتا تو لاکھوں زندگیوں کیلئے سنگین خطرہ ثابت ہوتا، یہی وجہ تھی کہ دنیا کے بیشتر ممالک سمیت اقوام متحدہ کی ایٹمی ایجنسی اے ای آئی اے نے ایرانی ایٹمی تنصیبات ہر اسرائیلی اور امریکی حملوں کو نہایت خطرناک قدم کہا تھا، اس کے باوجود صدر ٹرمپ کی توقع کہ وہ نوبل انعام کے حقدار ہوسکتے ہیں، پاگل پن کے علاوہ اسے کچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.