برادر کُشی کسی صورت بہتر نہیں، افغان عوام اور طالبان دو الگ حقیقتیں ہیں

برادر کُشی کسی صورت بہتر نہیں، افغان عوام اور طالبان دو الگ حقیقتیں ہیں
افغان طالبان کے وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی نے دورۂ ہندوستان ایسے حالات میں کیا جب نئی دہلی کے حکمران پاکستان کے ساتھ جنگ کے دوران لگنے والے زخم چاٹنے میں مصروف تھے اور اس تاک میں ہیں کہ کس طرح پاکستان کو مغلوب کیا جائے،ویسے تو ہر چند روز بعد ہندوستانی جنرلز پاکستان کو خالی خولی دھمکیوں کا شور و غوغا مچاتے ہیں، مجھے وہ وقت یاد ہے جب افغان طالبان نے کابل کی جانب مارچ شروع کیا تو اس سے قبل ہندوستان نے 10 سے 14 اگست 2021ء کے درمیان قندھار اور مزارِ شریف کے قونصل خانے بند کر دیے تھے، اور صرف کابل میں تقریباً 150 سفارتی اور غیر سفارتی عملے کے ساتھ بھارتی سفارت خانہ فعال تھا۔
سفارت کار اور عملہ خوفزدہ تھا کیونکہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی کے باعث ہندوستان اپنے سفارتی عملے کو منتقل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، نئی دہلی کے حکام کے ذہنوں میں 1996ء کا وہ منظر گردش کر رہا تھا جب مزارِ شریف پر طالبان کے قبضے کے دوران ایرانی سفارت کاروں کے قتل کا ہولناک واقعہ پیش آیا تھا۔
اسی خدشے کے تحت نئی دہلی نے کابل میں موجود اپنے سفارت کاروں کی جانیں بچانے کیلئے مغربی ممالک کے ذریعے اسلام آباد سے یقین دہانیاں حاصل کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ سمجھ چکا تھا کہ ہزاروں افغان طالبان کے قتل میں بالواسطہ طور پر ملوث ہونے کی بنا پر کابل میں داخل ہونے والے مسلح جتھے افرا تفری کے عالم میں بھارتی سفارت کاروں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
پندرہ اگست 2021ء کو جیسے ہی طالبان کابل میں داخل ہوئے، بھارتی سفارت خانے نے فوری طور پر ہنگامی الرٹ جاری کیا، سفیر رودندر ٹنڈن اور دیگر عملے کو ایئرپورٹ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور بالآخر 16 اگست کو بھارتی طیارہ سفارت کاروں اور عملے کو لے کر پہلے تاجکستان اور پھر نئی دہلی روانہ ہوا، اس دوران پاکستان نے ایک مہذب ملک کی طرح طالبان کو مشورہ دیا کہ وہ ہندوستان سمیت تمام سفارت کاروں کی حفاظت کو یقینی بنائیں تاکہ عالمی سطح پر اُن کی حکومت کو قبولیت حاصل ہو سکے۔
افغان وزیرِ خارجہ مولوی امیر متقی کا حالیہ دورۂ نئی دہلی دراصل پاکستان کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے یا پھر افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں، افغان طالبان بہت جلد بھول گئے کہ پاکستان واحد ملک تھا جو گزشتہ چار دہائیوں سے افغان طالبان کو پشتونوں کا اصل نمائندہ قرار دیتا چلا آیا ہے، افغانستان میں نیٹو افواج کی موجودگی کے دوران افغانستان کے دونوں سابق صدور، حامد کرزئی اور اشرف غنی کا واضح جھکاؤ ہندوستان کی طرف رہا ان ادوار میں بھارتی فوجی مشیر کابل میں طالبان کے خلاف جنگی منصوبہ بندی تیار کرکے افغان فوج کے حوالے کرتے تھے اِن منصوبوں پر عمل درآمد کے نتیجے میں ہزاروں افغان طالبان مارے گئے، جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسی را،طالبان رہنما ملا عمر سمیت دیگر جنگجو کمانڈرز کو تلاش کرنے میں سرگرم تھی۔
پاکستان نے افغان طالبان کو پناہ دی حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اس کا مغربی دنیا میں منفی تاثر جائے گا، صدر حامد کرزئی اور اشرف غنی اپنے اپنے ادوار میں کوئٹہ شوریٰ کا رونا روتے رہےمگر پاکستان نے افغان طالبان کی اس شوریٰ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، افغان طالبان کو دوبارہ کابل تک پہنچانے میں پاکستان کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو طالبان سے مذاکرات پر آمادہ کیا، جس کے نتیجے میں طالبان کو کابل میں غیر مشروط اقتدار ملا۔
افغان طالبان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ ایک کمزور پوزیشن پر کھیل رہے ہیں اگرچہ انہوں نے ماضی سے کچھ سبق سیکھا ہے ، کون نہیں جانتا کہ افغان طالبان کی مطلق العنانی نےافغانستان کےمتعدد پشتون قبائل، نسلی گروہوں اور مذہبی اکائیاں ناخوش ہیں، جسکی وجہ سےافغان طالبان اندرونی اختلافات کا شکار ہوئے ہیں،ایسے حالات میں افغان طالبان کا ہندوستان سے قربت بڑھانا ایک خطرناک جوا ہے جس کے نتائج تشویش ناک ہو سکتے ہیں، طالبان پاکستان کو کیوں اپنا دشمن بنانا چاہتے ہیں حالانکہ دونوں طرف اسلام کے نام لیوا مسلمان بستے ہیں، اسی طرح پاکستان کو افغانوں کیلئے نرم گوشہ رکھنا چاہیئے کیونکہ متعصبانہ پالیسی کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔
افغان عوام ہمارے بھائی اور دوست ہیں اور وہ وقت کبھی نہیں آئے گا کہ جب افغان عوام پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان کو اپنا مسیحا سمجھیں، ہندوستان کی موجودہ حکومت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گہرا تعصب رکھتی ہے، اگر امیر خان متقی واقعی اسلامی حکومت کے نمائندہ ہیں تو انہوں نے بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ اور پھر کس حق سے پہلگام واقعے کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کہا؟ پاکستان نے تو افغانستان میں انتخابات کرانے کے بعد منتخب نمائندوں کو اقتدار سپرد کرنے کا مطالبہ نہیں کیا حالانکہ عالمی برادری کا یہی تقاضا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کو دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں الزام تراشی سے بات نہیں بنے گی، افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا یہ کہنا کہ پاکستانی فوج میں بعض افراد افغانستان کی بہتر ہوتی سکیورٹی صورتحال اور ترقی سے خوش نہیں ہیں ،یہ بیان صرف سفارتی آداب کی خلاف ورزی نہیں بلکہ کھلی بہتان تراشی ہے، یہ بیانیہ غالباً نئی دہلی کی ڈکٹیٹڈ لائن ہے، افغانستان ترقی کرے گا تو اُس کے شہری اپنے وطن واپس جائیں گے، دونوں ملکوں میں تجارت بڑھے گی، اور غربت کی بنا پر ترکِ وطن کرنے والے افغان اپنے ملک کی تعمیر میں کردار ادا کر سکیں گے، امید کی جانی چاہیے کہ چین، جو پاکستان اور افغانستان دونوں کے قریب ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے میں کردار ادا کرے گا۔
Catch all the کالمز و بلاگز News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.