آڈیو لیک کی تحقیقات کیلئے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی روک دی گئی
اسلام آباد : جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کل کے فیصلے کے بعد ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی روک رہے ہیں۔
آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے بنائے گئے تین رکنی جوڈیشل کمیشن کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دوسرا اجلاس ہوا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ کوئی آرڈر جاری کیا گیا ہے۔ کیا آپ کے پاس آرڈر کی کاپی ہے؟ اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز کے عدالتی فیصلے کی کاپی کمیشن کے سامنے پیش کر دی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا انکوائری کمیشن ان درخواستوں میں فریق ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن کو سیکریٹری کے ذریعے فریق بنایا گیا ہے۔
کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ کیا آپ کل وہاں نوٹس ملنے پر پیش ہوئے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹس نہیں ہوا تھا، مجھے زبانی بتایا گیا تھا تو گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو کل کا حکمنامہ پڑھنے کی ہدایت کی، جس پر اٹارنی جنرل حکم نامہ پڑھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تھوڑا بہت آئین میں بھی جانتا ہوں۔ آپ نے کل عدالت کو بتایا کیوں نہیں ان کے اعتراضات والے نکات کی بات بتائی، ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں۔ عابد زبیری اور شعیب شاہین نے آج آنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ کیا انہیں آکر بتانا نہیں تھا کہ کل کیا آرڈر ہوا۔
سربراہ کمیشن کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب سرپرائز ہوا ہوں، آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا۔ شعیب شاہین صاحب نے میڈیا پر تقریریں کر دیں لیکن یہاں آنے کی زحمت نہ کی۔ پرائیویسی ہمشہ گھر کی ہوتی ہے۔ کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں کم از کم ہمیں اس عدالتی کارروائی کے لئیے نوٹس ہی جاری کر دیتے۔
ان کا کہنا تھا کہ کل کے حکمنامہ میں میرے کیس کا ذکر بھی ہوا۔ میرے کیس میں معاملہ الگ تھا۔ میری اہلیہ نے کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ اسے کیوں اور کس نے کھڑا کیا۔ دوسروں کی عزت ہے تو تھوڑی ہماری بھی ہونی چاہئیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو جج کا حلف پڑھنے کی ہدایت کی۔ سربراہ کمیشن کا کہنا تھا کہ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا۔ یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے۔ کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا۔
کمیشن نے کہا کہ ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں۔ ایک طرف پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹاک شو میں بیٹھے ہیں۔ ہم ججز ٹاک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ بطور وکیل ہم بھی اس لئے آرڈر لیتے تھے اگلے روز جا کر متعلقہ عدالت کو آگاہ کرتے تھے۔ یہ ٹوئٹر کیا ہے اور ٹوئٹر ہینڈل انڈیبل کیا ہے؟ پتا تو چلے کہ کون آڈیو جاری کر رہا ہے، اصلی ہیں بھی یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں : قائمہ کمیٹی کا ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو لیک کی تحقیقات ایف آئی اے سے کرانے کا فیصلہ
سربراہ کمیشن نے کہا کہ ہوسکتا ہے جن لوگوں کی آڈیوز ہیں، انہوں نے خود جاری کی ہوں۔ ہوسکتا ہے عبدالقیوم صدیقی نے اپنی آڈیو جاری کی ہو۔ تحقیقات ہونگی تو یہ سب پتا چل سکے گا۔ جج کو پیسے دینے کی بات ہو رہی ہے مگر تحقیقات پر اسٹے آجاتا ہے۔
جوڈیشل کمیشن کا کہنا تھا کہ پرائیویسی صرف گھروں اور اہلخانہ کے متعلق ہوتی ہے۔ کوئی مجھے فون کرکے پیسوں کے عوض فیصلے کا کہے تو کیا یہ پرائیویسی ہوگی؟ میں کسی کو کام کے بدلے رعایت دوں تو کیا یہ بھی پرائیویسی ہوگی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اکثر لوگ فون پر سازشیں بھی کرتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کم از کم کمیشن کو نوٹس جاری کرکے مؤقف ہی سن لیتی۔ سڑکوں پر لگے ٹریفک کیمرے اوور اسپیڈ چیک کرنے کیلئے ہوتے ہیں۔ ٹریفک کیمرے لڑکے لڑکی کا نکاح نامہ پوچھنے کیلئے استعمال نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے کہا کہ غیر قانونی ریکارڈنگ پر کارروائی ہو سکتی ہے۔ کیا سڑک پر لگے کیمرے کی فوٹیج قتل کیس میں بھی استعمال نہیں ہوسکتی؟ دوران سماعت عدالت میں میرے کیس کا حوالہ بھی دیا گیا۔ میرے کیس کے حقائق تو یکسر مختلف تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری جائیداد کی معلومات لینے والے کا دعوی غلط ثابت ہوا۔ میرے خلاف درخواست گزار کو کسی اور نے کھڑا کیا تھا۔ برطانیہ میں تین پاؤنڈ فیس ادا کرکے کوئی بھی جائیداد کی معلومات لے سکتا ہے۔
سربراہ کمیشن نے کہا کہ سابق حکمرانوں کی جائیدادوں کی تفصیل حاصل کرکے عدالت کو دی تھی۔ یہ غیرمناسب بات ہے کہ وکیل صاحب نے میرے کیس کا حوالہ دیا۔ دوسروں کی عزت ہے تو تھوڑی بہت ہماری بھی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہمیں کئیں بار بہت تکلیف دہ قسم کے ٹاسک ملتے ہیں۔ ہم وہ ٹاسک انجوائے نہیں کر رہے ہوتے مگر حلف کے تحت کرنے کے پابند ہیں۔ حلف کے تحت اسکی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا۔ ہمیں کیا پڑی تھی ہمیں اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا۔
انہوں نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ جسے درد ناک واقعے جیسی تحقیقات کرنا پڑتی ہیں۔ آب شام کو ٹالک شوز میں کہا جائے گا ہم آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ٹی وی پر ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہاں آکر بتاتے نہیں کہ اسٹے ہوگیا ہے۔
جوڈیشل کمیشن کا کہنا تھا کہ ہم نے چار بندوں کو نوٹس کر کے طلب کیا تھا۔ صرف عبدالقیوم صدیقی پیش ہوئے ہیں۔ باقی لوگوں کو بھی پیش ہونا چاہیے تھا مگر یہاں کون پرواہ کرتا ہے۔ جو لوگ نہیں پیش ہوئے اب ہم کیا کرسکتے۔ باقی لوگوں کو بھی پیش ہونا چاہیے تھا، مگر یہاں کون پرواہ کرتا ہے۔ جو لوگ نہیں پیش ہوئے اب ہم کیا کرسکتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کل کے فیصلے کے بعد ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی روک رہے ہیں۔ ہم آج کی کارروائی کا حکمنامہ جاری کریں گے۔
Catch all the بریکنگ نیوز News, پاکستان News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.








