پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس؛ قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتاں بل 2025 ترامیم کے ساتھ منظور
National Commission for Minority Rights Bill 2025 passed with amendments
قومی کمیشن اقلیتی حقوق کا بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے منظور کرلیا ہے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اقلیتوں کے حقوق کا بل پیش کیا، وزیر قانون نے کہا کہ قرآن و سنت کے منافی کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہو سکتی، جے یو آئی کو بھی اس حوالہ سے یقین دہانی کروائی ہے، اس کے باوجود کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے اس کی شق 35 کو حذف کر دیا جائے، اس پہ بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایکٹ غیر مسلموں کے لیے ہے، آئین پاکستان کے مطابق قادیانی غیر مسلم ہیں، یہ ہمارے خمیر میں نہیں کہ کسی بھی صورت ایسی قانون سازی ہو جس سے قادیانی فتنے کو ہوا ملے، اقلیتی برادری بھی اتنی ہی محب وطن ہے جتنے ہم ہیں، ہم نے اپنے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، یہ بل 12 سال سے پینڈنگ ہے، منظور کیا جائے۔
اقلیتی حقوق کمیشن کی تحریک کے حق میں 160 ووٹ جبکہ مخالفت میں 79 ووٹ پڑے ہیں، تحریک کی پیپلز پارٹی نے حمایت کی لیکن پیپلزپارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے واک آؤٹ کیا۔ تاہم قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیتاں بل 2025 کو حتمی منظوری مل گئی۔
بل پر بحث کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیرقانون نے کہا قادیانی خود کو مسلمان کہتے ہیں آئین کو نہیں مانتے، شاید وزیر قانون کو قادیانیوں کی چالاکیوں کا پتہ نہیں، اگرآپ نے قادیانیوں کو راستہ دے دیا تو وہ اسکا فائدہ اٹھائیں گے، اس مصیبت میں پڑنا نہیں چاہتے، پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مسائل باہمی مشاورت سے حل کرتے ہیں، مشورے کا راستہ قیامت تک کھلا رہے گا، کسی بھی آئینی ترمیم پر مشاورت ہونی چاہیے، ایوان کی اکثریت کا احترام کیا جاتا ہے لیکن 27ویں ترمیم میں ایسا نہیں ہوا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 27 ویں ترمیم کو جس طرح منظور کروایاگیا ہے تاریخ میں لکھاجائے گا، ہمارا آئین اور قانون مشترک ہے، احترام سب پر واجب ہے، 27 ویں ترمیم آئین پر ایک زخم محسوس کیاجائے گا۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ 27 ویں ترمیم پر قوم مطمئن نہیں کسی کو اعتماد میں نہیں لیاگیا، پہلی بات تو یہ ہے کہ شعوری طور پر ایسا کیوں کیاگیا۔
بل پر بحث کے دوران عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ جس بل پر آج ہم بات کررہے ہیں یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا کارنامہ تھا، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کو کافر قراردیا، اپوزیشن کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کوئی بیان نہیں آتا۔
انہوں نے کہا کہ ایسے دروازے نہ کھولیں کہ حرمت رسولﷺ پر کوئی سوال اٹھے، محمدﷺ اورآل محمدﷺ کی ناموس پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی اورنہ ہونے دیں گے۔
پیپلپزپارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ مولانا صاحب کی بات کی حمایت کرتا ہوں، یہ کہہ کر وہ ایوان سے باہر چلے گئے۔ ہمارا اقلیتوں کے ساتھ کوئی مسلہ نہیں ہے، قادیانیت اسلام کو غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں جس کو عوام برداشت نہیں کر سکتے، ہمارا وہی مؤقف ہے جو مولانا فضل الرحمان کا ہے۔
بل پر بحث کے دوران بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ آج اس ایجنڈے میں پارلیمنٹ نے 7 قوانین کی منظوری دینی ہے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوتا ہے تو لوگ امید سے سنتے ہیں، آئین پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 2 قسم کے قوانین کی اجازت دیتا ہے، ایک وہ جوآرٹیکل 70 اور دوسرا جو آرٹیکل 75 کو کور کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ایسی قانون سازی ہو جس سے اقلیتوں کو تحفظ ملے، اقلیتوں کے حقوق ہر حال میں محفوظ ہونے چاہئیں، اسلام کیخلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ قومی کمیشن حقوق بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوچکاہے، اقلیتوں کے حقوق کے قومی کمیشن کے معاملے کو غلط رنگ دینا افسوسناک ہے، ختم نبوت ﷺ کے معاملے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو قانون سازی پر سیاست کرنے کی بجائے اپنی تجاویز دینی چاہئیں، سینیٹ، عہدے، سیاست کیا چیز ہے، جان بھی قربان ہے، قوانین اور آئین میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ اگر آئین میں کوئی بہتری لانی ہے تو ہم ہر وقت حاضر ہیں، حکومتیں آنی جانی ہیں، یہ کسی کی وراثت نہیں ہے۔
Catch all the پاکستان News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.









