کوئی خط موصول نہیں ہوا، ایران نے ٹرمپ کے دعوے کی تردید کردی

ٹرمپ کا ایرانی سپریم لیڈر کو دھمکی آمیز خط ، ایران کی تردید
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو خط لکھنے کا دعویٰ کیا تاہم ایران نے امریکا کے اس دعوے کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مشن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجنے کے تازہ ترین دعوے کو مسترد کر دیا۔
ایران کے مستقل مشن نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں ابھی تک ٹرمپ کی جانب سے لکھا گیا ایسا کوئی خط نہیں ملا ہے۔
قبل ازیں فاکس بزنس کی ماریہ بارٹیرومو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے آیت اللہ خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے اور ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے پر بات چیت کی تجویز دی ہے۔
انہوں نے تہران کو فوجی کارروائی کی دھمکی دینے سے قبل دعویٰ کیا کہ میں نے خط میں کہا کہ مجھے امید ہے آپ مذاکرات کریں گے، کیونکہ یہ ایران کے لئے بہت بہتر ہونے جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اپنا دارالحکومت تہران سے کہاں منتقل کر رہا ہے؟
انٹرویو میں ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں وہ اس خط کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا متبادل یہ ہے کہ ہمیں کچھ کرنا ہے کیونکہ آپ ایک اور جوہری ہتھیار نہیں بننے دے سکتے۔’
ایران بارہا کہہ چکا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کی جوہری ٹیکنالوجی صرف شہری مقاصد کے لیے ہے۔
اس کے علاوہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کا ایک فتویٰ بھی موجود ہے جس میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
فروری میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کا ایران کے مسائل کے حل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ یہ دکھاوا کرتے ہیں کہ اگر ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھیں تو کوئی مسئلہ حل ہوجائے گا لیکن حقیقت یہ ہے ہمیں صحیح طور پر سمجھنا چاہئے کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کا ملک کے مسائل کے حل پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ایرانی سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ امریکا سے مذاکرات کرنا ذلت آمیز بات ہے جس کے ہم پہلے کبھی حامی تھے اور نہ ہوں گے۔
بعد ازاں فروری میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے مذاکرات کے لیے تہران کے کھلے پن کا اعادہ کیا، لیکن اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران غنڈہ گردی کرنے والی طاقتوں کے دباؤ کے آگے نہیں جھکے گا اور دباؤ میں کسی بھی مذاکرات میں شامل نہیں ہوگا۔
مئی 2018 میں، ٹرمپ نے امریکا کو ایک کثیر الجہتی بین الاقوامی معاہدے سے الگ کر لیا تھا، جو باضابطہ طور پر مشترکہ جامع ایکشن پلان (جے سی پی او اے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس معاہدے پر ایران اور 2015 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے درمیان دستخط کیے گئے تھے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے منظور شدہ معاہدے کے مطابق ایران پر عائد ظالمانہ پابندیاں اٹھانے کے بدلے میں ایران کو اپنی کچھ جوہری سرگرمیاں کم کرنا ہوں گی۔
Catch all the دنیا News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.