بگرام ایئر بیس واپس نہ کی نتائج کے لیے تیار رہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان کو دھمکی

US President Donald Trump warns Afghanistan against returning Bagram Air Base, be prepared for consequences
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا افغانستان میں امریکی فوج کے زیر استعمال رہنے والے بگرام ایئر بیس کوواپس لینے کے لیے غصہ بڑھتا جارہاہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر افغانستان کے بگرام ایئر بیس کو دوبارہ امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا نیٹ ورک ٹروتھ سوشل پر جاری ایک پیغام میں لکھا ہے کہ اگر افغانستان نے بگرام ایئر بیس کو اسے تعمیر کرنے والوں یعنی امریکہ کو واپس نہیں کیا تو برا ہو گا۔
دو روز قبل لندن میں برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر کے ساتہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا تھا کہ امریکا افغانستان میں بگرام ایئر بیس واپس لینے کی کوشش کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم اپنا فوجی اڈا واپس چاہتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ اس جگہ سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار بناتا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے اپنے ملک کی افواج کے انخلا کے بعد سے متعدد مرتبہ کہ چکے ہیں کہ امریکا کو افغانستان میں بگرام فوجی اڈا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔
تقریباً دو دہائیوں تک یہ اڈہ القاعدہ اور طالبان کے خلاف لڑائی کا مرکز رہا۔ یہ 77 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جبکہ اس میں موجود بیرکس اور رہائش گاہیں ایک وقت میں 10 ہزار سے زیادہ فوجیوں کو پناہ دے سکتی ہیں۔
بگرام اڈے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میں تین امریکی صدور اس اڈے کا دورہ کر چکے ہیں جن میں جارج ڈبلیو بش، باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں۔ جو بائیڈن نے سنہ 2011 میں بگرام ایئربیس کا دورہ کیا تھا تاہم اُس وقت وہ امریکا کے نائب صدر تھے۔
سوویت یونین نے یہ فوجی اڈا 1950 کی دہائی میں صوبہ پروان میں قائم کیا تھا۔ بگرام 1980 کی دہائی میں افغانستان پر قبضے کے دوران سوویت افواج کا انتہائی اہم اڈا سمجھا جاتا تھا۔
توقع کی جارہی ہے کہ برطانیہ کے وزیرِ اعظم سر کیئر سٹارمر آج برطانیہ کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔
وزیر اعظم سٹارمر نے جولائی میں کہا تھا کہ اگر اسرائیل غزہ میں جنگ بندی اور دو ریاستی حل فراہم کرنے والے طویل المدتی پائیدار امن معاہدے کے لیے راضی نہیں ہوتا تو برطانیہ ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔
یہ برطانوی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس سے قبل برطانوی حکومتوں کا موقف رہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اقدام امن عمل کے تحت اس وقت ہونا چاہیے جب اس کا زیادہ سے زیادہ اثر ہو۔
برطانیہ کے اس فیصلے کو اسرائیلی حکومت، یرغمالیوں کے خاندانوں اور بعض قدامت پسندوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانع نے بھی ٹیلی گراف کے ساتھ ایک انٹرویو میں ـ امریکی صدر کے حالیہ بیان کے بارے میں ـ کہا ہم اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے مسترد کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے بیان کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کے بیان نفرت سے بھرپور ہیں۔ جب کوئی ملک دنیا کی طرف سے بات کرتا ہے تو اسے حقائق کی بنیاد پر بولنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا بگرام بیس کو امریکی افواج کے حوالے کرنا کبھی نہیں ہوگا، ایسے بیانات بے بنیاد اور عجیب ہیں۔
Catch all the دنیا News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News
Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.