ہفتہ، 25-اکتوبر،2025
جمعہ 1447/05/02هـ (24-10-2025م)

طالبان کے اقتدار میں خواتین صحافیوں کو میڈیا سے باہر دھکیل دیا گیا

24 اکتوبر, 2025 10:25

کابل: ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں آزادیِ اظہار اور صحافت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگست 2021 کے بعد طالبان حکومت نے میڈیا پر سخت قدغن لگاتے ہوئے آزادیِ رائے کا گلا گھونٹ دیا، صحافیوں کو معمولی تنقید پر گرفتار، قید، تشدد اور جبری گمشدگی کا سامنا ہے۔

طالبان نے ڈراموں، موسیقی اور خواتین کی آواز کو میڈیا سے مکمل طور پر ختم کر دیا ہے، جبکہ خواتین صحافیوں پر امتیازی پابندیاں عائد کر کے انہیں میڈیا اداروں سے باہر نکال دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق مرد صحافیوں کی تعداد 4 ہزار سے کم ہو کر 2 ہزار رہ گئی، جب کہ خواتین صحافیوں کی تعداد 1400 سے گھٹ کر 600 تک محدود ہو چکی ہے۔

طالبان کے انٹیلی جنس ادارے اور وزارتِ امر بالمعروف میڈیا دفاتر پر چھاپے مار کر مواد کی جانچ کرتے ہیں، اور صحافیوں کو صرف پیشگی منظور شدہ خبریں نشر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بعض صحافیوں کو رہائی سے پہلے تحریری طور پر عہد لینا پڑتا ہے کہ وہ دوبارہ صحافت نہیں کریں گے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کی پابندیوں کے باعث افغانستان کے 60 فیصد میڈیا ادارے بند ہو چکے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحافیوں پر تشدد، سینسرشپ اور خواتین پر امتیازی پابندیاں فوری طور پر ختم کریں۔

اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی افغان طالبان سے میڈیا پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق طالبان کی آمرانہ پالیسیوں سے نہ صرف افغانستان کے عوام متاثر ہو رہے ہیں بلکہ اس کے خطے کی سلامتی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

Catch all the دنیا News, Breaking News Event and Trending News Updates on GTV News


Join Our Whatsapp Channel GTV Whatsapp Official Channel to get the Daily News Update & Follow us on Google News.

اوپر تک سکرول کریں۔